Freitag, 15. Juli 2011

بزمِ جاں

بزمِ جاں




’’میری محبتیں ‘‘کی اشاعت سے پہلے ہی مجھے احساس تھا کہ اس میں شامل بعض شخصیات ایسی تھیں کہ ان پر مزید لکھا جانا چاہئے تھا۔بعض لوگ جن کا بیچ بیچ میں کہیں برسبیلِ تذکرہ نام آگیا ہے‘ان کی زندگی کے بعض خوبصورت انسانی رُخ بھی سامنے آنے چاہئیں تھے۔بہت سارے عزیز اور احباب ایسے ہیں جن کا پورا خاکہ نہیں لکھا جا سکتالیکن ان کے ذکر کے بغیر میری زندگی کی رُوداد بھی ادھوری رہے گی اور میری محبتیں بھی۔۔۔۔۔مزید خاکہ نگاری تو جب بھی ہوئی اپنے وقت پرہو گی۔ فی الوقت میں اپنی زندگی۔۔۔گزاری ہوئی زندگی کی طرف تو پلٹ کر دیکھ سکتا ہوں۔اپنے بہت سارے پیاروں‘رشتہ داروں‘دوستوں اور’’کرم فرماؤں‘‘سے تجدیدِ ملاقات تو کرسکتا ہوں۔سو بکھری ہوئی یادوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
جرمنی پہنچنے کے بعد بچپن میں امّی جی سے سنی ہوئی کئی کہانیاں یاد آئیں۔مبارکہ جس کی سادگی کا میں پاکستان میں مذاق اڑایا کرتا تھا‘جرمنی میں اب اس کے سامنے میں ایک پاکستانی’’پینڈو‘‘تھا۔مبارکہ بچوں سمیت مجھ سے اڑھائی سال پہلے جرمنی میںآچکی تھی اس لئے یہ ملک اس کے لئے اجنبی نہیں رہا تھا جبکہ میں ’’کثرتِ نظّارہ‘‘سے ایسے رُک رُک جاتا تھا جیسے شہر کے چوراہے پر ’’گواچی گاں‘‘کھڑی ہوتی ہے۔پہلی بار ایک مارکیٹ میں داخل ہونا تھا۔میں دروازے کے قریب پہنچا تو آٹو میٹک دروازہ اپنے آپ کھل گیااورمیرا منہ حیرت سے کھل گیا۔امی جی سے سنی ہوئی ’’ علی بابا اور چالیس چور‘‘والی کہانی یاد آگئی ۔اُس کہانی میں ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے سے دروازہ کھلتا تھا۔یہاں تو مجھے ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔دروازہ اپنے آپ کھل گیا۔زمین دوز ریلوے اسٹیشنوں میں‘مارکیٹوں میں‘اُوپر نیچے آنے جانے کے لئے خودکا رسیڑھیاں لگی ہوئی ہیں۔میں نے پہلی بار جھجھک کے ساتھ بجلی کی سیڑھی پر قدم رکھا‘ہلکا سا چکر آیا۔میں نے لحظہ بھر کے لئے آنکھیں موندلیں‘جیسے ہی آنکھیں کھولیں‘اُوپر کی منزل پر پہنچ چکا تھا۔کسی اناڑی کی طرح سیڑھی کی حد سے باہر آیاتو امی جی کی سنائی ہوئی کئی کہانیاں یاد آنے لگیں۔کہیں کوئی نیک دل دیو ہے‘کہیں سبز پری اورکہیں کوئی درویش ہے جو مہم جُو شہزادے کو کسی لمبی مسافت کی کوفت سے بچانے کے لئے‘اس کی مدد کرتے ہوئے اُسے آنکھیں مُوندنے کے لئے کہتے ہیں‘پھر جب شہزادہ آنکھیں کھولتا ہے تو منزلِ مقصود پر پہنچا ہوتا ہے۔میں اُوپری منزل پر پہنچا تو میرے ساتھ نہ کوئی نیک دل دیوتھا‘نہ کوئی درویش اور نہ ہی کوئی سبز پری۔۔۔۔صرف مبارکہ میرے ساتھ تھی ۔اس نے اگر سبز سوٹ پہنا بھی ہوا تھا تو وہ اس کے برقعہ کے کوٹ کے نیچے چھپا ہوا تھا۔اس کے باوجود میں نے مبارکہ کو من ہی من میں سبز پری سمجھا اور خود کو شہزادہ گلفام سمجھ کر خوش ہو لیا۔
یہاں کے گھروں میں کھڑکیوں کا شیشہ ایسا ہے کہ آپ اندر بیٹھے ہوئے باہر کی ہر چیز کو دیکھ سکتے ہیں جبکہ باہر کھڑا ہوا کوئی آدمی آپ کو بالکل نہیں دیکھ سکتا۔جب مجھے پہلے پہل اس کا علم ہوا دھیان فوراََ سلیمانی ٹوپی والی کہانی کی طرف چلا گیا۔مجھے ایسے لگنے لگا جیسے میں امی جی کی سُنائی ہوئی ڈھیر ساری کہانیوں کا جیتا جاگتا کردار بن گیا ہوں۔ساری کہانیاں جیسے اپنے آپ کو میرے وجود میں دُہرانے لگی ہیں۔کاش!امی جی زندہ ہوتیں اور میں انہیں اُن کی سنائی ہوئی کہانیوں کا حقیقی رُوپ دکھا سکتا۔اب تو وہ خود ہی کہانی بن گئی ہیں۔
اپنے ہاں تو غالبؔ اُس چارگرہ کپڑے کا افسوس کرتے رہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا لکھا ہوتا ہے۔اِدھر مغرب میں اُس تین گرہ کپڑے کی قسمت پر رشک آتا ہے جو گرمیوں میں حسینانِ مغرب نے زیب تن کر رکھا ہوتا ہے۔ایک طرف ایسا توبہ شکن منظر ہوتا ہے‘ دوسری طرف برقعہ میں لپٹی لپٹائی مبارکہ بیگم۔۔۔۔۔میں نے اسے کئی بار سمجھایا ہے‘پردہ کا مطلب خود کو دوسروں کی نظروں سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔پاکستان میں تو چلو ٹھیک ہے لیکن یہاں جرمنی میں اس قسم کا برقعہ تو پردے کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے ہر کسی کو متجسّس کردیتا ہے کہ یہ کیا شے جا رہی ہے؟میں نے دو تین دفعہ اسے تجربہ کرایا کہ عام آنے جانے والی گوریوں کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا لیکن مبارکہ کے بھاری بھر کم پردے کی وجہ سے ہر گزرنے والا ہمیں تعجب سے دیکھتا ہے اور ضرور دیکھتا ہے۔یوں مبارکہ کی بے پردگی ہو نہ ہومیری اچھی خاصی بے پردگی ہو جاتی ہے۔لیکن اس پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔
ایبٹ آباد میں قیام کے دوران طاہر احمد کے بعد ایک اور صاحب سے میری گہری دوستی تھی۔یہ سرگودھا کے مسعود انور تھے۔ڈاکٹر انور سدید کے صاحبزادے۔۔۔۔ان کے ساتھ انور سدید صاحب والی نسبت سے تو دوستی تھی ہی‘لیکن ہماری ایک حد تک ہم عمری بھی اس کے استحکام کا باعث بنی۔ادب اور سیاست کی تازہ صورتحال پر ہم کھل کر گفتگو کرتے تھے۔موسیقی سے مسعود انور کو خاصا لگاؤ تھا۔انہوں نے آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں کا نایاب ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔کسی لائبریری کی کتابوں کی طرح انہیں ترتیب سے رکھا تھا۔امید ہے ابھی تک اُن کا شوق سلامت ہوگا۔اُن دنوں وہ ذاتی طور پر ویڈیو کیسٹس میں ادیبوں کے انٹرویوز ریکارڈ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔خدا جانے وہ منصوبہ کہاں تک پہنچا۔ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی تھی کہ ہم ایک دوسرے کا مذاق اڑالیتے تھے لیکن ایک دن مسعود نے ایک بات اتنی سنجیدگی اور عقیدت سے کہی کہ ہمیں بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔
انہیں کسی زمانے میں سوتے وقت سینے پر بوجھ اور گھبراہٹ کی شکایت ہوجاتی تھی۔معدے کی خرابی ‘سینے کی جلن اور دیگر امکانی بیماریوں کے سارے علاج کرالئے ‘کوئی افاقہ نہیں ہوا۔اس دوران ان کی ایک پِیر سائیں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مسعود کو ہدایت کی کہ گھر کے کمروں کی دیواروں سے ساری تصویریں اتار دیں کیونکہ تصویروں کی اصل رُوحیں رات کو آپ کے سینے پر چلتی ہیں۔مسعود نے ایسا ہی کیا اور حیرت انگیز طور پر صحت یا ب ہو گئے۔ہو سکتا ہے یہ پِیر سائیں کا فیضانِ نظر ہو اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ نفسیاتی اثرہوا ہو۔ نتیجہ بہرحال اچھا رہا۔تب مجھے بھی اُن پِیر سائیں سے ملنے کی خواہش ہوئی‘ لیکن رابطہ ہونے سے پہلے مجھے وطنِ عزیز کو خیر باد کہنا پڑ گیا ۔۔۔۔۔اس قصہ کو سننے کے بعد ایک دن میں اور طاہر شاپنگ کرنے گئے۔وہاں طاہر بڑے شوق سے ریکھا‘سری دیوی ‘ مادھوری اور دوسری مقبول فلمی اداکاراؤں کے پوسٹرز کی قیمتیں معلوم کرنے لگا۔میں نے حیرانی سے اس کا سبب پوچھا‘کیونکہ طاہر کو فلمیریا کی کوئی شکایت نہیں تھی۔سنجیدگی سے کہنے لگا میں چاہتا ہوں راتوں کو ان سب کی رُوحیں میرے سینے پر چلتی رہیں کیونکہ رُوح کا ملن ‘جسم کے ملن سے زیادہ اہم ہے۔اس لئے ان کے پوسٹرز اپنے کمرے میں لگاؤں گا۔
ایبٹ آباد میں ہمارے کالج کے بعض اساتذہ’’مریضانِ محبت‘‘بنے ہوئے تھے۔ایک دفعہ یونہی اُوٹ پٹانگ باتیں ہورہی تھیں۔میں نے ان سے کہا کہ خواہش کی شدت خواب کا رُوپ دھارلیتی ہے۔اگر کبھی کسی کو خواب میں اپنی کوئی پسندیدہ شخصیت کسی من پسند حالت میں دکھائی دے تو بیدار ہونے پر بستر کی پائینتی کی طرف سر کر کے سو جائیں۔اُسی رات آپکی وہ پسندیدہ شخصیت اپنی نیند میں وہی خواب عین اُسی حالت میں دیکھ لے گی۔’’مریضانِ محبت‘‘نے اس فارمولے پر تھوڑی سی بے یقینی اور زیادہ خوشی اور حیرت کا اظہار کیا۔اگلے دن دو نوجوان اساتذہ ڈیوٹی پر آئے تو اُن کی آنکھیں سُرخ اور طبیعت بوجھل بوجھل سی تھی۔ملتے ہی کہنے لگے یار قریشی صاحب! ہم تو ساری رات پائینتیاں ہی بدلتے رہے ہیں۔
خواب کی اس مزاحیہ بات سے اپنی زندگی کے دو واقعات یاد آگئے۔سنجیدہ اور حیران کُن۔۔۔خانپور میں شوگر ملز کی ملازمت کے دوران ایک دفعہ میری شام ۶بجے سے رات ۲ بجے تک والی شفٹ تھی۔گھر سے چلا تو ہلکے سے ٹمپریچر کا احساس ہو رہا تھا‘فیکٹری پہنچنے تک بخار ہو گیا۔میں نے ساتھیوں کو اپنا کام سونپا اور خود لیبارٹری کے ڈارک رُوم میں جاکرلیٹ گیا۔فرش پر فلٹر کلاتھ کا ایک ٹکڑا بچھا ہوا تھا‘ایک اینٹ کا تکیہ بنا لیا لیکن اُوپر لینے کے لئے کوئی کپڑا نہیں تھا۔بخار کی وجہ سے ٹھنڈ بھی لگ رہی تھی۔میں اپنے آپ میں سمٹ کر ٹھنڈ سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔اسی دوران بخار کی غنودگی کی حالت میں ایسے لگا جیسے کسی نے آکر گرم رضائی میرے اُوپر ڈال دی ہو۔کسی کے آنے‘اپنے اُوپر رضائی ڈالے جانے اور پھر اس رضائی کو اپنے دائیں ‘بائیں اچھی طرح لپیٹنے کا عمل مجھے صاف صاف محسوس ہوا تھا۔پھر مجھے گہری نیند آگئی۔رضائی کی گرمائش سے کھل کر پسینہ آیا ۔
چھٹی کے پہلے سائرن کے ساتھ میری آنکھ کھلی تو مجھے محسوس ہوا بخار اُتر چکا ہے۔میں نے رضائی کو اپنے اُوپر سے ہٹاکر اُٹھنا چاہا۔لیکن میرے اُوپر تو کوئی رضائی نہیں تھی۔پھر یہ سب کیا تھا؟۔۔۔۔میں نے ابا جی کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا ایسے واقعات کو کسی کے آگے بیان نہیں کرنا چاہئے ورنہ انسان ایسے تجربات کی لذّت سے محروم کردیا جاتا ہے۔(ابا جی کی وفات کے بعد ابا جی کے تعلق سے ایک تجربے کے بعد مجھے باباجی نے بھی ایسی ہی نصیحت کی تھی۔لیکن شاید مجھ میں اخفاء کی برداشت کی قوت نہیں ہے) ۔
لگ بھگ بیس سال کے بعد یہاں جرمنی میں پھر ایک انوکھا واقعہ ہوا۔مجھے انفیکشن کی شکایت تھی۔ایک ہفتہ گزر گیا لیکن سستی کے مارے اپنے فیملی ڈاکٹر Herr Ehrhardt کے پاس نہیں جا سکا۔جب گلا بالکل بیٹھ گیا تب ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔ڈاکٹر پہلے تو اس بات پر ناراض ہوا کہ میں اتنی دیر کرکے کیوں آیا ہوں جب حالت اتنی بگڑ گئی ہے۔اب اسے کیا بتاتا کہ یہی تو ہمارے پاکستانی ہونے کا ثبوت ہے۔جب تک پانی ہمارے گلے تک نہ آجائے ہمیں بے فکری رہتی ہے۔بہرحال ڈاکٹر نے صبح‘دوپہر‘شام تینوں وقت بلا ناغہ سات دن تک کھانے کے لئے گولیاں دیں اور سخت تاکید کی کہ سات دنوں میں ایک وقت کا بھی ناغہ نہیں کرنا۔لیکن ہوا یوں کہ اسی دن میرے ماموں زاد مبشر اور ان کی بیگم ہمیں لینے کے لئے آگئے۔وہ ہمبرگ سائڈ کو چھوڑ کر ہمارے قریب ایک شہر لمبرگ میں نئے نئے آئے تھے۔ان کے مکان کی سیٹنگ کرنی تھی۔اسی کام کے لئے غزالہ اور اجمل بھی آگئے تھے۔میں صبح کی گولی کھا چکا تھا۔دوپہر کی گولی بھی کھا لی۔کام نمٹانے کے بعد غزالہ اور اجمل اپنے گھر چلے گئے۔مبارکہ اور میں وہیں رہ پڑے۔دن بھر کی تھکن کے باعث مجھے سخت نیند آرہی تھی۔اسی حالت میں بار بار یہ احساس ستا رہا تھا کہ پہلے ہی دن گولی کا ناغہ نہ ہو جائے اسے کھا کر ہی سونا چاہئے۔لیکن تھکن اتنی زیادہ تھی کہ میں سوچتا ہی رہ گیا اور نیند نے مجھ پر غلبہ پا لیا۔پھر میں نے نیند میں ہی محسوس کیا کہ وہی انفیکشن کے علاج والی ایک موٹی سی گولی کسی نے میرے منہ میں ڈال دی ہے ۔میں پانی کے بغیر اسے نگلنے کی کوشش کر رہا ہوں اور بالآخر نگل گیا ہوں۔
صبح بیدار ہوا تو ایسے لگتا تھا میرے ساتھ کوئی پُر اَسرار واقعہ ہو گیا ہے۔مجھے یقین تھا کہ میری گولیوں کے پیکٹ میں سے لازماََ ایک گولی کم ہو چکی ہوگی۔میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ گولیوں کو چیک کیا‘گولیاں جُوں کی تُوں موجود تھیں‘ان میں کوئی کمی نہیں ہوئی تھی۔لیکن یکایک مجھے احساس ہوا کہ ڈاکٹر نے جس بیٹھے ہوئے گلے کے ٹھیک ہونے کے لئے سات دن کی دوا دی تھی اور ایک وقت کا ناغہ بھی نہ کرنے کی تاکید کی تھی‘وہ گلا بالکل ٹھیک ہو چکا تھا۔تب میں نے خوشی کے مارے مبارکہ کو زور زور سے پکارنا شروع کردیا۔جب وہ آئی تو اسے رات کے خواب جیسے تجربے سے آگاہ کیا۔جب سارا قصہ سنا چکا تب مجھے ابا جی کی نصیحت یاد آئی لیکن تِیر تو کمان سے نکل چکا تھا اور پھر مجھے ابا جی بہت یاد آئے۔ہوسکتا ہے خواہش کی شدت خواب میں کسی نفسیاتی طریقے سے علاج بھی کر دیتی ہو۔ایسا ہے تو تب بھی یہ ایک سائنسی بھید ہے ۔ ویسے تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کیا بھید ہے لیکن ان دو تجربات سے یہ فائدہ ہوا کہ مجھے اپنی کہانی’’بھید‘‘لکھنے کی تحریک ہوئی۔
میرا چھوٹا بھائی اکبر کراچی میں سیٹ ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔وہیں ماموں کوثر پہلے سے سیٹ تھے۔ان کا بیٹا شکور باجوہ‘اکبرکا ہم عمر تھااور دوست بھی۔سانگلہ ہل میں مقیم میری ماموں زادآپا حلیمہ کا بڑا بیٹا محمود‘رشتے میں ہمارا بھانجہ ہے۔اکبر اور شکور کے ایج گروپ میں ہونے کے باعث ان کا بھانجہ کم اور دوست زیادہ تھا۔اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے عمروں کے واضح فرق کے باوجود میرے ساتھ بھی بے تکلفی کر جاتا تھا۔محمود تلاش معاش کے سلسلے میں کراچی پہنچا تو تین خوش مزاج نوجوانوں کی مثلث بن گئی۔جہاں یہ تینوں پہنچتے‘شیطان بھی ان سے پناہ مانگتا۔شکور کی گپ بازی‘اکبر کا پُر لطف طنز اور محمود کی جُگت بازی‘ ۔۔یوں سمجھیں معین اختر‘عمر شریف اور امان اﷲ خان تینوں کامیڈین ایک ساتھ آگئے ہیں۔تینوں مل کر اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیتے ۔ایک دوسرے سے بھی ہاتھ کرلیتے تھے۔اکبر گھر پر نہیں تھا۔محمود نے آکر اکبر کی بیوی زاہدہ سے کہا کہ ماموں حیدر کے دوست اظہر ادیب خانپور سے آئے ہیں۔اکبر سے ملنا چاہتے ہیں۔زاہدہ نے کہا اکبر تو دیر سے آئیں گے۔تم انہیں بیٹھک میں بٹھاؤ ‘میں کھانے پینے کو کچھ بھجواتی ہوں۔محمود خود ہی اظہر ادیب بن کر بیٹھک میں بیٹھ گیا ۔پھر اُٹھ کر ریفریشمنٹ لے کر آیا اور خود ہی کھا پی گیا۔اس کے بعد زاہدہ کو آکر بتایا کہ وہ ذرا جلدی میں ہیں اس لئے اب جانا چاہتے ہیں۔شاید پھر کبھی چکر لگائیں لیکن وہ پھر کبھی چکر نہ لگا سکے کیونکہ تھوڑی دیر بعد محمود نے خود ہی اصل بات بتا دی۔
فی الوقت مجھے ان تینوں کے جو کارنامے یاد آرہے ہیں‘انہیں خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ ہی رہنے دینا چاہتا ہوں۔تینوں پاکستانی نوجوان بے روزگار تھے۔تینوں ترکِ وطن پر مجبور ہوئے۔اکبر لندن چلا گیا‘شکور جرمنی آگیا اور محمود امریکہ پہنچ گیا۔اس کے باوجود بھانڈوں کا یہ گروپ ایک دوسرے سے جُڑا ہوا تھا۔زندگی کی مزاحیہ فلم کے ان تین مرکزی کرداروں کے ساتھ ایک اور کامیڈی کردار ذکیہ کا ہے۔ذکیہ میری ماموں زاد بہن ہے۔دس سال پہلے ٹُن ٹُن(اومادیوی)جیسی لگتی تھی‘چہرہ عابدہ پروین جیسا۔۔۔۔۔اب تو ضخامت میں بہت ترقی کر گئی ہے۔تکلیف دہ موٹاپے کے باوجود اس کی خوش مزاجی اور زندہ دلی سلامت تھی۔یہاں’’تھی‘‘کالفظ میں نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔۱۹۹۶ء میں شکور ۳۹ سال کی عمر میں فوت ہو گیا تو زندگی کی مزاحیہ فلم المیہ سے دوچارہو گئی۔ ہر دَم خوش رہنے اور ہنسنے ‘ہنسانے والوں کو چُپ سی لگ گئی۔
جرمنی میں مقیم ہونے کے باعث شکور کا ہم سے گہرارابطہ تھا۔ہمبرگ سے کسی نہ کسی بہانے ہر مہینے فرینکفرٹ کا چکر لگا جاتاتھا۔اس کا قیام ہمیشہ ہمارے گھر میں رہا۔حالانکہ بھابی رعنا کے بہن بھائی بھی اِدھر ہی رہتے ہیں اور ہمارے اپنے دو کزنز بھی قریب ہی رہتے ہیں لیکن شکور فیملی ہمیشہ ہمارے گھر میں ہی قیام پذیر ہوتی۔ان کے چاروں بچے ہمارے ہاں آنے کے بعد کہیں اور جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔شکور کے مزید ذکر سے پہلے ایک ہلکا سا دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔۔۔کراچی میں ماموں صادق کے گھر کے ساتھ والے گھر سے بھی اس قصے کا تعلق بنتا ہے۔
ایک دفعہ میں کراچی گیا‘ماموں صادق کے ہاں ٹھہرا تھا۔گرمیوں کے دن تھے لیکن راتیں ٹھنڈی ہوجاتی تھیں۔میں رات کو بیٹھک میں سویا۔چھت کا پنکھا چَل رہا تھا۔آدھی رات کومجھے ٹھنڈک کا احساس ہونے لگاتومیں نے اُٹھ کر چھت کا پنکھا بند کردیااور پھر لیٹ گیا۔مجھے محسوس ہوا کہ سوئچ آف کرنے کے باوجود پنکھا چَل رہا ہے۔بلب جلا کر چیک کرنے کی بجائے میں نے نیچے کی چادر اوپر لے کر گزارہ کرلیا۔پھر بھی مجھے رات بھر ٹھنڈ لگتی رہی۔صبح اُٹھ کر دیکھا تو پنکھا بند تھا۔ممانی زاہدہ سے پوچھا پنکھا آپ نے بند کیا تھا؟انہوں نے کہا’’نہیں‘‘۔
میں نے کہا رات تو یہ بند کرنے کے باوجود بند نہیں ہوا تھاپھر اب کیسے بند ہو گیا؟ جبکہ میں رات بھر ٹھٹھرتا رہا ہوں۔ممانی زاہدہ سارا ماجرا جان گئی تھیں۔انہوں نے زوردار قہقہہ لگا کر کہا ساتھ والے ہمسایوں کے ملحقہ کمرے کا پنکھا رات بھر چلتا رہا تھا۔ اس کی گڑ گڑاہٹ سے تم سمجھتے رہے کہ تمہارے کمرے کا پنکھا چلتا رہا ہے۔
لیکن پھر مجھے ٹھنڈ کیوں لگتی رہی؟ میں نے پوچھا تو ممانی زاہدہ نے پھر ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بتایا کہ یہ پہاڑی کے رُخ والی کھڑکی کھلی تھی جس سے ہوا آتی رہی۔اُسی دن ممانی زاہدہ نے ہمسایوں سے شکایت کی کہ آپ کے پنکھے کی وجہ سے ہمارا بھانجہ ساری رات پالے سے ٹھرتا رہا ہے ۔اس شکایت پر غور کرنے کے بعد ہمسایوں نے مطالبہ کیا کہ چونکہ ہمارے پنکھے سے آپ کے بھانجے کو ہوا محسوس ہوتی رہی ہے اس لئے رات بھر کا بجلی کا بِل آپ ادا کریں۔ انہیں ہمسایوں کی چھوٹی بہن رعنارفعت بعد میں شکور سے شادی کرکے رعنا شکور بنیں۔
ماموں کوثر اور ممانی شمیم نے اس رشتے کی شدید مخالفت کی پھر یکایک ماموں کوثر اس شادی کے لئے راضی ہو گئے۔میں نے شکور سے پوچھا کہ ماموں کوثر اس رشتے کے لئے یکدم کیسے راضی ہو گئے تھے؟۔۔۔۔شکور کہنے لگا:اُس دن گھر میں بہت سارے مہمان آگئے تھے۔بستر کم پڑ رہے تھے۔سو مجھے رات کو ابا جی کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر سونا پڑا۔تب مجھے دن میں بھی رعنا کے خواب نظر آتے تھے‘رات کو تو آتے ہی آتے تھے۔چنانچہ پتہ نہیں کس پَل میں‘ مَیں کس کیفیت سے دو چار تھاجبکہ چارپائی پر تو ساتھ ابا جی سوئے ہوئے تھے۔اُس رات اباجی تہجد کے وقت سے بھی پہلے اُٹھ گئے۔میرے بیدار ہونے پر انہوں نے مجھے بُرا بھلا کہا اور ساتھ ہی رعنا سے شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
ماموں کوثر بنیادی طور پر سیلف میڈ انسان ہیں۔انہوں نے اپنی محنت سے بے شمار کمایا اور شوبازی سے گنوا بھی دیا۔مجھے یاد ہے ہمارے رحیم یارخاں میں قیام کے زمانے میں رحیم یار خاں آئے تھے۔یہاں اباجی سے پیسے مانگنے کی بجائے انہوں نے’لیور برادرز ‘میں دیہاڑی والی مزدوری کی۔تھوڑی سی رقم جوڑی اور تلاشِ رزق میں کراچی جاپہنچے۔وہاں فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر پینسلیں‘قلم وغیرہ فروخت کرنے سے کام کا آغاز کیا۔خدا کے فضل اور اپنی محنت سے ایک ہوزری کے مالک بن گئے۔ عروج تک پہنچے تو کچھ ان کی ’’شوبازی‘‘کی عادت نے اور کچھ ممانی شمیم کی’’ میں ‘‘نے پھر زوال سے ہمکنار کردیا۔سب کچھ ختم ہو گیا‘پھر سے فٹ پاتھ پر آگئے لیکن حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔نئے سرے سے محنت کی۔
دوسری بار جب ابھی تگ و دو میں مصروف تھے‘میرا کراچی جانا ہوا۔ایک دن مجھے افسانہ نگار فردوس حیدرکے ہاں جانا تھا‘ماموں بھی ساتھ ہو لئے۔میری پہلی ملاقات تھی لیکن ماموں کوثر نے کچھ سوچے سمجھے بغیر وہاں بھی لمبی لمبی چھوڑنی شروع کردیں۔خود کو پی آئی اے کے ایک پراجیکٹ کا کنٹریکٹر ظاہر کیا۔مجھے خاصی شرمندگی ہو رہی تھی۔یہ شرمندگی اس وقت اور بڑھ گئی جب فردوس حیدر ہمیں خدا حافظ کہنے کے لئے باہر تک آگئیں۔جب انہوں نے دیکھا کہ پی آئی اے کے اتنے بڑے کنٹریکٹر کے پاس گاڑی نہیں ہے‘تب انہوں نے اپنی گاڑی نکال کر گھر تک پہنچا دینے کی پیش کش کی۔میں تو زمین میں گڑا جارہا تھا مگر ماموں کوثر کو معمولی سی خفّت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ان کے حوصلے اور جرأت کا میں تب سے معترف ہوں۔ممانی شمیم کی ’’میں‘‘اور ماموں کوثر کی بے جا’’شوبازی‘‘کے عیب کو نظر انداز کردیا جائے تو ان کی یہ خوبی اُبھر آتی ہے کہ وہ سخت محنت اور لگن والے انسان ہیں۔انہوں نے دوسری بار فٹ پاتھ سے ایک کامیاب فرم قائم کرنے تک کا سفر کرلیا ہے۔اب تو ان کے پاس سچ مچ گاڑیاں بھی آگئی ہیں۔اب جب کبھی کراچی جانا ہوا فردوس حیدر کے ہاں ماموں کوثر کے ساتھ ہی جاؤں گا اور اس بار مجھے خفّت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ اس بار سچ مچ ماموں کوثر کے پاس گاڑی ہو گی۔
شکور کو جب پہلے پہل ہسپتال میں داخل کیا گیا ‘مَیں‘اجمل‘شعیب اور عثمان فوراََ ہمبرگ پہنچے ۔ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔بھابی رعنا سے کہنے لگا :دیکھو!بھائی ایسے ہوتے ہیں۔اس کا اصرار تھا کہ ہم سب عید اُس کے ہاں آکے کریں۔میں نے ایک خصوصی پیش کش کے ساتھ اسے کہا کہ آپ سب لوگ عید پر ہمارے ہاں آجائیں۔شکور راضی ہو گیا اور اس نے وعدہ کیا کہ عید پر ضرور آؤں گا۔
جب ہم واپس آنے لگے ‘شکور نے مجھے اکیلے کو روک لیا۔کچھ گھریلو باتوں کے علاوہ اس نے ایک دُکھ کا اظہار کیا۔کہنے لگا:میں ستمبر (۱۹۹۵ء) میں پاکستان جاکر والدین سے مل کر آیا ہوں۔ابھی اُس سفر کے قرضے نہیں اترے۔ اس غیر حاضری کی وجہ سے نوکری بھی جاتی رہی۔جنوری (۱۹۹۶ء) میں چھوٹی بہن کی شادی پر جانا میرے لئے ممکن نہیں تھاتب سے اباجی (ماموں کوثر)سخت ناراض ہیں۔جب بھی میں نے ٹیلی فون کیاہے میری آواز سنتے ہی ٹیلی فون بند کردیتے ہیں۔یہ بات بتاتے ہوئے اس کے اندر کا سارا کرب اس کی آواز اور اس کی آنکھوں سے عیاں تھا۔میرے ساتھ اس ملاقات کے بعد بھابی رعنا کی اس سے ایک بار ملاقات ہوئی اور پھر وہ آپریشن رُوم میں چلا گیا۔جگر کی تبدیلی کا آپریشن تھا۔نازک صورتحال تھی۔جرمنی میں مقیم سارے عزیز ہمبرگ پہنچنے لگے۔مبارکہ‘رضوانہ‘حفیظ‘شعیب‘عثمان‘ٹیپو‘اویس،غزالہ‘اجمل‘مبشر ، بھابی نوشی‘عارفہ‘منان‘ سب مضطرب تھے۔بھابی رعنا کی حالت تو ناقابلِ بیان تھی۔
دھڑکتے دلوں کے ساتھ دعائیں ہو رہی تھیں۔لیکن کوئی دعا کارگر نہ ہوئی۔شکور فوت ہو گیا۔اس کی میّت پاکستان بھجوانے کا انتظام کیا جانے لگا۔اس سلسلے میں اﷲ تعالی اجمل کو جزائے خیر دے جس کی ہمت اور تگ و دو کے نتیجہ میں میّت کو پاکستان بھجوانے کا انتظام ہو سکا۔
عید سے ایک دن پہلے شکور کی میّت ہمبرگ سے فرینکفرٹ پہنچی۔
زندگی بھر گپیں ہانکنے والا میرا کزن مرنے کے بعد وعدے کا اتنا پکا نکلے گا۔
یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
***

ددھیال کے رشتہ دار

ددھیال کے رشتہ دار

میرے ددھیال میں ابا جی اور بابا جی صرف دو ہی بھائی تھے‘بہن کوئی نہ تھی‘سو ہماری کوئی پھوپھی نہ تھیں۔تاہم ابا جی اور بابا جی کی دو کزنز تھیں۔بُوا حیات خاتوں اور بُوا لال خاتوں۔دونوں سے ہمیں پھوپھیوں کا اتنا پیار ملا کہ کسی حد تک پھوپھیوں کی عدم موجودگی کی تلافی ہوگئی۔بُوا حیات خاتوں چاچڑاں شریف میں بیاہی ہوئی تھیں۔ہمارے رحیم یار خاں میں قیام کے دوران ‘اور پھر خانپور میں قیام کے دوران بھی ان کا ہمارے ہاں مسلسل آنا جانا رہا۔ان کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔مجھے امی جی کے بعد بچپن میں سب سے زیادہ کہانیاں بُواحیات خاتوں نے سُنائیں۔ان کی کہانیوں میں انسانوں ‘پرندوں اورجانوروں کے کردار مل جل کر رہتے تھے۔
بُوڑھی مائی نے کوّے سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چڑیا شہزادے سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کہانی جو مجھے آج بھی بہت اچھی طرح یاد ہے اس میں تو چُوہا‘بلّی‘کتّا‘ڈانگ‘آگ‘چھوٹی نہر‘بڑی نہر‘درخت۔۔۔۔یہ ساری چیزیں بھی باتیں کرتی تھیں۔شاید ایسی کہانیاں انسان اور فطرت میں مغائرت سے پہلے کے ‘پرانے زمانے کی یادوں کی بازگشت ہوتی ہیں جو کچھ ہمارے شعور میں اور کچھ لا شعور میں ہمیں ورثہ در ورثہ ملتی رہتی ہیں۔
بوا حیات خاتوں بڑھاپے میں بھی بے حد خوبصورت تھیں۔ذہین لیکن دل کی سادہ۔۔۔زمانے کی رفتار پر حیران لیکن اس کے حیرت انگیز ارتقا کو جانتی بھی تھیں اور مانتی بھی تھیں۔ان کے بر عکس بُوا لال خاتوں بہت ہی بھولی بھالی تھیں۔بُوا لال خاتوں کوٹ شہباز میں بیاہی ہوئی تھیں۔کوٹ شہباز قریشیوں کی اپنی بستی ہے۔پہلے تو ایک ہی بڑی ساری حویلی تھی جس کے اندر سب کے اپنے اپنے گھر تھے۔اب حویلی سے باہر بھی مکانات کی تعمیر ہوگئی ہے تاہم اصل حویلی ابھی بھی قائم ہے۔۔۔اگررحیم یارخاں سے ظاہر پِیر کی طرف جائیں تو رستے میں
’’ شیخ واہن ‘‘کا اسٹاپ آتا ہے۔یہاں سے اندازاََ دو میل کے فاصلے پر’’ کوٹ شہباز‘‘ہے۔
بچپن میں ہم نے جب بھی کوٹ شہباز جانا ہونا تھا شیخ واہن کے بس اڈے پر ہمیشہ پہلے سے ایک تانگہ موجود ہوتا تھاجو ہمیں کوٹ شہباز لے جاتا تھا۔معروف سیاستدان مخدوم حمیدالدین ہاشمی اور مخدوم نور محمد ہاشمی صاحبان کا گاؤں ’’میانوالی قریشیاں‘‘کوٹ شہباز سے آٹھ دس میل کے فاصلے پر ہے۔دونوں بستیوں میں قریشی برادری کا رشتہ تھا۔شادی اور مَرگ پر آنا جانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر بات ہو رہی تھی بُوا لال خاتوں کے بھولپن کی۔کسی عزیز کی بیماری کے باعث بُوا رحیم یارخاں آئیں۔ہسپتال میں عیادت کے لئے گئیں۔یہ ۶۰۔۱۹۵۹ء کی بات ہے۔ہسپتال میں مریض کے قریب ایک پیڈسٹل فین رکھا ہوا تھا جو دائیں‘بائیں گھوم رہا تھا۔بُوا لال خاتوں نے ایک دو بار یہ منظر حیرت سے دیکھا پھر خوفزدہ ہو کر کہنے لگیں:
یہ کیا اَسرار ہے؟یہ تو کوئی طلسماتی شے ہے۔خود بخود کبھی اِس طرف ہوا دینے لگتی ہے کبھی اُس طرف ہوا دینے لگتی ہے۔۔۔۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی رحیم یار خاں میں ہمارے گھر میں بھی بجلی نہیں آئی تھی۔لکڑی کے تختے سے بھاری بھرکم کپڑا لٹکا کراسے چھت پر لٹکا دیا جاتا تھا ۔تختے سے ایک مضبوط ڈوری باندھی جاتی پھر اسے ایک چرخی سے گزار کر کھینچا جاتا۔بجلی آنے سے پہلے ایسے پنکھے ہوا کرتے تھے۔کوٹ شہباز میں بھی ایسے ہی پنکھے تھے۔اب تو کوٹ شہباز بھی بجلی کی برکتوں سے فیض یاب ہو رہا ہے۔
بُوا لال خاتوں پہلی بار لاہور گئیں۔ایک تو لاہور ریلوے اسٹیشن کی پُر شکوہ عمارت‘پھر ہجومِ خلق ۔اوراس ہجوم میں سُرخ وردی میں ملبوس قلیوں کی فوج ظفر موج۔اوپر سے قلیوں کا ’فرطِ محبت ‘سے سامان اُٹھانے میں سبقت لے جانے کی کوشش‘اور اس کوشش میں سامان کی کھینچا تانی۔۔۔۔بُوا لال خاتوں نے سمجھا ڈاکوؤں نے ہَلّہ بول دیا ہے۔چنانچہ انہوں نے بچاؤ۔۔۔بچاؤ ۔۔۔کا شور مچا دیا۔
یہ بھولپن تو سن پچاس اور ساٹھ کے درمیانی عرصہ کا ہے۔اَسّی کی دَہائی میں جبکہ گھر گھر ٹی وی پہنچ چکا تھا‘اس زمانے میں بھی بھولے بھالے لوگ مل جاتے تھے۔خانپور میں مبارکہ کی ایک سہیلی تھی سعیدہ۔۔۔سعیدہ کی والدہ کنیز بی بی نے ساری زندگی فلم نہیں دیکھی تھی۔ان کے گھر ٹی وی آیا تو ماسی کنیز نے ٹی وی پر مَردوں کو دیکھ کر پردہ کر لیا تاکہ ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والے مَرد انہیں بے پردہ نہ دیکھ لیں۔ سعیدہ اور ماسی کنیز ابھی بھی خانپور میں مقیم ہیں۔اﷲ انہیں خوش رکھے۔۔۔۔۔۔ہمارا معاشرہ جب تک ایسے معصوم لوگوں سے بسا ہوا تھا تب تک قناعت پسند اور آسودہ تھا۔علم کی برکات سے انکار نہیں لیکن جب سے ہمارے معاشرے میں معصومیت کی جگہ چالاکی آ گئی ہے‘قناعت کی جگہ حرص نے لے لی ہے۔رزق کی فراوانی کے باوجود معاشرہ بے سکون اور بے چَین ہے۔اس کے ذمہ دار بلا امتیاز ہم سب ہیں۔
کوٹ شہباز کے اہلِ قریش رحیم یار خاں جب بھی آتے‘ ہمارے ہاں قیام کرتے۔ خانپور میں بھی ہمارا گھر ان کے قیام کا مرکز رہا ۔رحیم یار خاں میں رہائش کے دنوں کی بات ہے میرا چھوٹا بھائی اکبر (جو اَب لندن میں مقیم ہے)گھر کے صحن میں بیٹھا مٹی سے کھیل رہا تھا۔تب اس کی عمر چار سال کے لگ بھگ تھی۔کھیلتے کھیلتے اچانک چونک کربولا:’’اوہ!‘‘ امی جی اس کی طرف متوجہ ہوئیں تو کہنے لگا :کوٹ شہباز والے آرہے ہیں۔۔۔۔امی جی نے خیال کیا کہ بچے کو بعض عزیزوں کا خیال آگیا ہوگااس لئے ایسی بات کردی ہے۔کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد اکبر نے پھر ویسی ہی ’’اوہ!‘‘کی اور پھر بتانے لگا:ان کی جیپ خراب ہوگئی ہے۔امی جی تو ابا جی کی بزرگی اور روحانیت سے بھی الجھتی رہتی تھیں‘کچھ کچھ معاملہ بھانپ گئیں اور کہنے لگیں: بڑے میاں سو بڑے میاں‘چھوٹے میاں سبحان اﷲ۔۔۔ابھی ان کے باپ کی بزرگی مانی نہیں گئی اور یہ بیٹا بھی بزرگی جتانے لگاہے۔تھوڑے وقفہ کے بعد اکبر نے پھر ’’اوہ‘‘کی اور کہا:جیپ ٹھیک ہو گئی ہے ۔اب وہ ہمارے گھر آرہے ہیں۔۔۔۔اورپھر سچ مچ تھوڑی دیر کے بعد کوٹ شہباز والے آگئے۔امی جی نے ان کے آتے ہی پوچھا:کیا آپ لوگوں کی جیپ رستے میں خراب ہوگئی تھی؟۔۔۔۔وہ سب کے سب ہکا بکا رہ گئے کہ یہ خبر ہمارے گھر کیسے پہنچ گئی۔اکبر جو اپنے آپ میں مگن بدستور مٹی سے کھیل رہا تھا‘امی جی نے اس کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ ہمیں تو ساری رپورٹ یہی دیتا رہا ہے۔
بوا لال خاتوں کے بعد بھی کوٹ شہباز کے عزیزوں سے پیار محبت کا تعلق قائم رہا۔یہ تعلق ختم تو نہیں ہوا لیکن اس میں تھوڑی سی دراڑ ضرور پیدا ہوگئی۔ہم لوگ قریشی ہونے کے باوجود ذات پات کو اہمیت نہیں دیتے۔میری والدہ باجوہ خاندان سے ہیں۔میری بیوی بھی باجوی ہے کہ میری ماموں زاد ہے۔رشتے ناطے میں ہم صرف’’موزوں رشتے‘‘کو اہمیت دیتے ہیں۔میری ایک بھابی جاٹ خاندان کی ہے‘ایک ارائیں اور ایک اعوان۔ایک بہنوئی سید ہے‘ایک راجپوت ہے اور دوجاٹ۔۔۔میری بڑی بہن کی شادی ہوئی۔کوٹ شہباز والے عزیز بڑے چاؤ سے شریک ہوئے۔شادی سے پہلے آکر رونق لگائی۔رخصتی والے دن جب بارات آئی تو انہوں نے دیکھا کہ بارات میں اونچے اونچے طروّں والے پنجابی جاٹ موجود ہیں۔اِدھر اُدھر سے سن گن لی۔جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ دولہا کا نام چوہدری عبدالرّحیم ہے اور قریشیوں کی بیٹی کا بیاہ ایک جاٹ سے ہو رہا ہے‘اُن کی قریشی شان کو دھچکا سا لگا۔خاموشی سے ایک بس بُک کراکے لائے اور تمام مرد‘خواتین اور بچے بس میں بیٹھ کر اپنے گاؤں چلے گئے۔شادی کے ہنگامے میں ہمیں پتہ بھی نہ چل سکا۔وہ تو جب رخصتی کا وقت آیا اور اُن میں سے بعض عزیزوں کو آگے لانے کی ضرورت پڑی‘تب پتہ چلا کہ وہ تو سب کے سب خاموش احتجاج کرتے ہوئے جاچکے ہیں۔تب ابا جی کو اپنے ان عزیزوں پر افسوس ہوا۔ان سے ملنا ملانا تو ترک نہیں کیا لیکن انہیں پھر کسی بچے کی شادی پر مدعو نہیں کیا۔
کوٹ شہباز کے عزیزوں کی بڑی بڑی زمینیں تھیں لیکن زیادہ تر غیرآباد۔۔۔۔۱۹۷۰ء کے لگ بھگ انہوں نے زمینوں کا صحیح استعمال کرنا شروع کیا۔بھاولپور ڈویژن کے مختلف دیہاتوں میں ان کے مُرید موجود تھے۔ہر چھ ماہ بعد پِیر صاحبان اپنا دورہ کرتے‘سادہ لوح عقیدت مندوں سے ڈھیروں ڈھیر اناج‘دوسری چیزیں اور نقدی سمیٹ لاتے۔ان سادہ لوح عقیدت مندوں کی دینی حالت کا اندازہ اس ایک واقعہ سے کر لیں:ہم سارے گھر والے کوٹ شہباز گئے ہوئے تھے‘وہاں بھائی شہان کے گھر(بوا لال خاتوں اپنے اسی بیٹے کے ہاں رہتی تھیں) پنجاب کی سندھ سے ملحقہ سرحد کے کسی گاؤں سے چند مُرید خواتین آئیں(مُرید مَردوں کو باہر ڈیرے پر ٹھہرایا جاتا تھا ) ۔ گھرکے دروازے سے باہر ہی وہ خواتین فرطِ عقیدت سے زمین پر بیٹھ گئیں۔وہاں سے کمرے تک کا فاصلہ جو لگ بھگ ۳۰میٹر تھا‘انہوں نے زمین پر گھسٹ گھسٹ کر طے کیا۔تمام بیبیوں کے پَیروں کو عقیدت سے چھُوا اور زمین پر ہی بیٹھی رہیں۔۔۔۔اسی دوران قریب کی مسجد سے ظہر کی اذان شروع ہوئی ۔۔۔سب خاموش ہو گئے۔۔۔اذان ختم ہوئی تو سب نے کلمہ شریف پڑھا‘مُریدنیاں حیرانی سے سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔آخر ان میں سے ایک نے جو نسبتاََ بڑی عمر کی تھی‘بڑی ہی عاجزی سے بوا لال خاتوں سے پوچھا:’’بی بی پہلے وہ جوان رُوڑ رہا تھا۔وہ چُپ ہوا تو آپ سب رُوڑنے لگ گئیں۔یہ کیا معاملہ تھا؟‘‘
اگر یہ واقعہ ہمارا چشم دید نہ ہوتا تو میں کبھی بھی نہ مانتا کہ وطنِ عزیز کے کسی دیہات میں ایسے مسلمان بھی موجود ہیں جن بے چاروں کو نہ کلمے کا پتہ ہے نہ اذان کاعلم ہے۔کوٹ شہباز میں مُلیر درّن‘مُلیر مِیم اور ادی بالن بفضلہ تعالی زندہ ہیں‘وہ یقیناََ اپنی مخصوص مسکراہٹوں کے ساتھ اس واقعہ کی تصدیق کریں گی۔
ہم جب بھی کوٹ شہباز جاتے ہماری اس طرح آؤ بھگت کی جاتی جیسے ہم ان کے پِیر ہوں۔حویلی کا ہر گھر ہمیں اپنے ہاں ٹھہرانے پر مُصر ہوتا تھا۔لیکن ہم نے ہمیشہ بوا لال خاتوں کی بڑی بیٹی مُلیر دُرّن کے ہاں ہی قیام کیا۔میزبانی پر تُلے ہوئے اتنے گھر تھے کہ صبح‘دوپہر‘شام کے کھانے کے لئے ہمیں مشکل پڑ جاتی۔پھر باقاعدہ ٹائم ٹیبل بناتے تاکہ ایک ہی وقت میں دو دو ‘تین تین گھروں میں کھانا تیار نہ ہو۔کوٹ شہباز کے قریشی اپنے مُریدوں سے مال سمیٹ لاتے تھے لیکن جب ہم واپس آنے لگتے‘ساری حویلی کے گھروں سے اس طرح تحائف آنا شروع ہو جاتے جیسے مُریدانِ باصفا اپنے پِیروں کے سامنے نذرانے پیش کر رہے ہوں۔ گندم‘ چاول‘ پیاز‘ آلو‘ لہسن‘ چینی‘گُڑ وغیرہا چیزوں کے ڈھیر لگ جاتے ۔پھلوں سے لے کر کپڑوں تک اتنی چیزیں ہوتیں کہ ہمارے لئے انہیں گھر لے جانا مشکل ہو جاتا ۔ یہ مشکل بھی پھر انہیں عزیزوں میں سے کوئی دور کرتا اور سارا سامان بحفاظت ہمارے گھر پہنچ جاتا۔وہ سارے تحائف اب بظاہر عجیب سے لگتے ہیں لیکن ان کے ساتھ جو رشتوں کا تقدس‘محبت اور خلوص کی دولت ہوتی تھی وہ اتنی قیمتی تھی کہ اس کے مقابلے میں آج کی زندگی کی ساری آسائشیں اورنعمتیں بے معنی لگنے لگتی ہیں۔
اوپر میں نے بعض ناموں کے ساتھ مُلیر کا لفظ استعمال کیا ہے۔یہ سرائیکی لفظ ہے۔ماموں زاد رشتوں کے لئے بولا جاتا ہے۔خالہ زاد کے لئے مُسات‘پھوپھی زاد کے لئے پھوپھیر اور تایا زاد‘چچازادکے لئے سوتر بولا جاتا ہے۔کوٹ شہباز کے عزیزوں کو یاد کرنے لگا ہوں تو کئی خوبصورت نام ستاروں کی طرح میری یادوں میں کہکشاں سی بنانے لگے ہیں۔بوا لال خاتوں کی اولاد میں میاں پِیرن دِتہ‘میاں شہان‘مُلیر درّن‘مُلیر مِیم‘ادی بالن‘۔پھر چاچا قادر بخش‘چاچا گومے شاہ‘میاں نواز شاہ‘۔ان سب کی اولاد وں میں میاں شہبازن‘میاں مجیدن‘میاں رؤف‘میاں کریم بخش‘میاں سرفراز‘میاں بھورل شاہ‘میاں حبیبن‘ میاں فیضن‘میاں ارشاد‘میاں وڈا‘میاں شیر‘بی بی صغریٰ‘بی بی رئیسہ‘بی بی مکھنی‘بی بی حرباب‘بی بی اشفاق‘بی بی پروین‘بی بی مقصود‘بی بی حاکم‘بی بی ہوتن‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے علاوہ متعدد اور چہرے ہیں جو اس وقت پوری طرح میرے ذہن اور دل میں آئے ہوئے ہیں لیکن میری بد قسمتی ہے کہ مجھے ان کے نام یاد نہیں آرہے۔چاچا گومے شاہ اور چاچا قادر بخش ہم سے ہمیشہ اس بات پر شاکی رہے کہ ہم نے چچا کا رشتہ پسِ پشت ڈال دیا ہے اور بوا کے رشتے کو معتبر کر دیا ہے۔وہ ایک جملہ بھی بولا کرتے تھے:’’وو میاں! مُنڈھ کُوں چھوڑ تے پاند کوں پکڑی پے او۔مُنڈھ تاں اساں نال اے‘‘ان کی اس شکایت میں بھی محبت ہی تھی۔
بی بی رئیسہ ‘مُلیر دُرّن کی بیٹی ہونے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ عزیز رہی ہے۔پھر وہ میاں پِیرن دِتہ کے بیٹے وڈے میاں کی دلہن بن گئی تو مجھے اور عزیز ہوگئی۔بی بی اشفاق بچپن میں بہت ہی پیاری بچی تھی۔پتہ نہیں اسے کس کی نظر کھا گئی۔۱۹۹۱ء میں مبارکہ نے اور میں نے اب تک کا کوٹ شہباز کا آخری سفر کیا۔بی بی اشفاق کو دیکھا تو دل پر گھونسہ سا لگا۔بی بی رئیسہ اور بی بی حُرباب بھی اس کی حالت پر دُکھ کا اظہار کر رہی تھیں۔سارے کوٹ شہباز میں سب سے خوبصورت بچی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی تھی۔
کوٹ شہباز میں وٹہ سٹہ (بدلے کی شادی)کا رواج تھا‘وہ بھی برابر کی قریشی برادری میں۔جس لڑکی کا وٹہ لینے کے لئے لڑکا نہیں ہوا‘اُسے زندگی بھر شادی کے بغیر رہنا ہے۔میاں نواز شاہ کی بہن(نام یاد نہیں رہا) اور ادی بالن اسی رسم کا شکار ہوئیں۔ان کے بجھے ہوئے چہرے یاد کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ قریشِ مکّہ جو نام نہادغیرت کے نام پر بیٹیوں کوزندہ گاڑ دیتے تھے‘شاید اس لحاظ سے بہتر تھے کہ ایک ہی بار مارڈالتے تھے جبکہ زندگی بھر کنواری بٹھا دی جانے والی بیٹیاں تو ہر پَل میں ایک نئی موت کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔
کوٹ شہباز میں تو صرف وٹے سٹے کا رواج تھا جبکہ باقی سرائیکی علاقے میں وٹے سٹے کا متبادل ٹکا کہلاتا ہے۔یعنی اگر رشتہ کے بدلے میں رشتہ نہیں ہے تو ایک معقول رقم ادا کرکے لڑکی کا رشتہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔وٹہ سٹہ میں ایسے بھی ہوا کہ باپ نے اپنی بیٹی بیاہی اور اس کے بدلہ میں دولہا والوں کی بہن سے اپنی دوسری شادی رچالی۔ایسامفاہمانہ رویّہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لڑکی بیاہتے وقت فریق ثانی کے پاس وٹہ نہیں تھا تو اس نے اپنے ہاں ہونے والی پہلی بیٹی وٹہ میں لکھ دی۔اسے’’پیٹ لکھوا لینا‘‘کہا جاتا ہے۔ٹکے والی شادی میں صرف رقم بھی چلتی ہے اور رقم کے ساتھ دوسری چیزیں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مثلاََ ایک بکری‘دو مُرغیاں‘ایک سیکنڈ ہینڈ سائیکل اور ۵۰۰ روپے دے کر لڑکی کا رشتہ حاصل کیا گیا۔تاہم قریشیوں میں صرف وٹہ سٹہ ہی کا رواج تھا‘وہ بھی صرف قریشیوں کے ساتھ۔امی جی پنجابی تھیں۔ان کے خاندان میں وٹہ سٹہ جیسی کوئی قبیح رسم رائج نہیں تھی۔ابا جی سے ان کی شادی ہوئی۔پہلی دفعہ سرائیکی ماحول میں آئیں۔پندرہ برس کی عمر۔۔۔اتنی خوبصورت لڑکی۔۔۔۔دلہن کو دیکھنے کے لئے آنے والیاں پوچھتیں:
بہن!وٹہ تو قریشیوں کا تھا نہیں۔۔۔پھر ٹکا دیا ہوگا؟
کوئی رشتہ دار خاتون جو امی جی کا خیال رکھنے کے لئے موجود ہوتیں‘جواب دیتیں: نہیں بہن ٹکا نہیں لیا‘اﷲ واسطے دی ہے۔
جب دس بارہ خواتین نے یہی بات کی اور ہر بار یہی وضاحت کی گئی تو امی جی نے رونا شروع کر دیا۔تب ابا جی نے انہیں سمجھایا کہ علم کی کمی کے باعث ہمارے علاقے میں بہت ساری غیراخلاقی اور غیر اسلامی رسمیں رائج ہیں۔آپ ایسی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں کہ ہماری شادی تو درست اسلامی طریق سے ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ویسے کوٹ شہباز کے قریشیوں میں بھی اب بیٹیوں کے رشتے کی اہمیت واضح ہونے لگی ہے۔رشتے تو بے شک قریبی رشتہ داروں میں کئے ہیں لیکن اب وٹے سٹے کے بغیر بھی رشتے کرنے لگے ہیں۔اس معاملے میں میاں نواز شاہ‘میاں کریم بخش‘میاں ارشاد ‘میاں فیضن ااور مُلیر دُرّن کو وہاں کے ابتدائی انقلابی قرار دیا جا سکتا ہے۔مجھے امید ہے کہ ان چراغوں سے مزیدچراغ جلے ہوں گے اور قبیح رسموں کا اندھیرا مسلسل کم ہو تا جا رہا ہوگا۔
ایک زمانہ تھا جب کوٹ شہباز میں اسکول نہیں کھلنے دیا جاتا تھا۔نوکری کرنے کو اپنی توہین سمجھا جاتا تھا۔خدا خدا کرکے ایک اسکول کھولا گیا تو صرف لڑکوں کے لئے۔۔۔۔لڑکیوں کو پڑھانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔وہی زمانۂ جاہلیت کے قریشِ مکّہ والی باتیں۔۔۔لیکن آس پاس کے علاقوں میں تو علم کی روشنی پھیل رہی تھی۔سو پِیروں کے مُرید باغی ہونے لگے۔ان کی تعداد کم ہونے لگی۔فارغ بیٹھ کر روٹی کھانے کا امکان ختم ہونے لگا تو علم کے حصول کا احساس بھی ہونے لگا۔چنانچہ اب بعض لڑکے پڑھ لکھ کر نوکریاں کرنے لگے ہیں۔بالآخر لڑکیوں کا اسکول بھی کھول دیا گیا ہے۔بعض قریشیوں نے خود کاشتکاری کی طرف توجہ کی ہے۔باغات لگائے ہیں۔بعض نے تجارت کا پیشہ اپنا لیا ہے۔خدا ان سب کے کاروبار کو ترقی عطا کرے‘ان کے اموال میں برکت بھر دے اور انہیں خوش رکھے۔ہمارے ددھیال کے ان دور کے رشتہ داروں نے ہمیں کبھی دل سے دوری کا احساس نہیں ہونے دیا۔ہمیشہ اتنی محبت دی کہ ہماری جھولیاں چھوٹی پڑگئیں۔
آپی کی رخصتی سے پہلے ان لوگوں کا خاموشی سے رُوٹھ کر چلے جانا بھی ان کی محبت ہی کا ایک انداز تھا۔
قبیلہ قریش والی محبت کا انداز!
***

کزنز

کزنز

میرے چچازاد اور پھوپھی زاد بھائی بہن نہیں ہیں۔خالہ زاد بھائی بہنوں میں صرف خالہ سعیدہ کی دو بیٹیاں صالحہ اور نعیمہ میرے ایج گروپ میں آتی ہیں۔خالہ حبیبہ کے بیٹے‘بیٹی عمر کے لحاظ سے مجھ سے بہت چھوٹے ہیں۔سو اُن سے محبت کا تعلق تو ہے لیکن دوستانہ بے تکلفی والی بات نہیں ہے۔میرے تین ماموں زاد صحیح معنوں میں میرے ایج گروپ کے ہیں۔کریم اﷲ ‘مجیداﷲ اور مبشّر۔۔۔۔کریم اﷲ ‘مجیداﷲ جڑواں بھائی ہیں اور بڑے ماموں کے بیٹے ہیں۔مبشّر میری بیوی کا بھائی اور ماموں ناصر کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ماموں کوثر کا بیٹا شکور اگرچہ عمر میں مجھ سے پانچ سال چھوٹا تھا لیکن بے تکلفی میں سب سے آگے تھا۔باقی ماموں زاد اور خالہ زاد یا تو عمر میں مجھ سے بہت بڑے ہیں یا بہت چھوٹے۔اسی لئے ان کے معاملے میں احترام یا شفقت کا ایک پردہ حائل ہے۔اپنی ماموں زاد آپی نعیمہ سے بچپن میں میری گہری دوستی تھی۔صالحہ اور نعیمہ دونوں میری کھوئی ہوئی کزنز ہیں۔خالہ سعید ہ ہالینڈ میں مقیم تھیں۔وہاں ان کی اپنے شوہر سے ناچاقی ہو گئی۔معاملہ بڑھا تو دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔خالہ سعیدہ غم و غصہ کی حالت میں دونوں بیٹیوں صالحہ اور نعیمہ کو بھی ان کے والد ڈاکٹر غلام احمد بشیرؔ صاحب کے پاس چھوڑ آئیں۔صالحہ اور نعیمہ کو ان کے والد ڈاکٹر غلام احمد بشیرؔ اور ان کی دوسری(ڈچ)بیوی نے پالا پوسا۔ وہ دونوں فوت ہو گئے۔صالحہ اور نعیمہ کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہ ہوسکا۔جرمنی آنے کے معاََبعد سے مسلسل کوشش کر رہا ہوں۔ابھی تک کوئی واضح سراغ نہیں مل سکا ۔دنیا امید پر قائم ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ہم بچپن کے بچھڑے ہوئے کزنز ایک بار ضرور آمنے سامنے ہوں گے۔چاہے یہ آمنا سامنا بڑھاپے کی سرحدپر ہی کیوں نہ ہو۔*۱
مجھے یقین ہے کہ جب بھی ہماری ملاقات ہوئی صالحہ کو یاد آجائے گاکہ مکئی کے کھائے ہوئے سِٹّے کو توڑ کر اور اس میں چڑیوں اور کبوتروں کے پروں کو ٹھونس کر وہ کیسی عمدہ شٹل بنایا کرتی اور ہم دونوں ریکٹ کے طور پر اسکول کی تختیوں کو استعمال کرتے ہوئے اس شٹل سے اپنی دیسی بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے۔نعیمہ کو اور کچھ یاد آئے نہ آئے لیکن یہ تو ضرور یاد آئے گا کہ اسے بچپن میں مٹی کھانے کا شوق تھا جبکہ آپی‘میں اور صالحہ خدائی فوجدار کی طرح اس کی تاک میں رہتے تھے ۔ایک بار اس نے بڑی عقلمندی سے کام لیاتھا۔ہمسایوں کی کچی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی۔پہلے اِدھر اُدھر دیکھتی پھر بڑی مہارت کے ساتھ دیوار کی طرف منہ کرکے کچی مٹی کی دیوار کو چاٹ لیتی۔اس کی تمام تر مہارت کے باوجود میں نے اس کی چوری پکڑلی تھی۔اور پھر حسبِ معمول صالحہ ‘آپی اورمیں۔۔۔۔۔۔۔ہم تینوں نعیمہ کو ٹانگوں اور بازوؤں سے اٹھائے ہوئے گھر لئے جا رہے تھے جہاں لازماََ اسے خالہ سعیدہ سے ڈانٹ پڑنی تھی۔ایک عرصہ کے بعد رشید احمد صدیقی کا پُر لطف مضمون ’’میرا بچپن‘‘پڑھا تو شگفتگی کے تمام تر احساس کے باوجود میں اداس ہو گیا۔مجھے صالحہ اور نعیمہ دونوں خالہ زاد بہنیں بہت یاد آئیں۔
کریم اﷲ ‘ مجیداﷲ مجھ سے سوا سال بڑے ہیں جبکہ مبشّر مجھ سے ایک سال چھوٹاہے۔بچپن میں ہی مبشّر کی دوستیاں بڑی عمر کے لوگوں سے زیادہ ہوتی تھیں۔لڑائی بھڑائی میں بھی وہ تیز تھا۔میں جسمانی لڑائی میں ہمیشہ سے پھسڈی ہوں۔کریم اﷲ‘ مجیداﷲ تو اس معاملے میں میرے بھی بڑے بھائی ہیں۔جڑواں بھائی ہونے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ وابستہ تھے۔اب تو خیر ان کی شکلیں صاف پہچانی جاتی ہیں لیکن بچپن میں تو انہیں پہچاننے میں اچھے اچھوں کو مغالطہ ہو جاتاتھا۔ اباجی نے کئی بار دونوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔کافی غور سے دونوں کے چہرے دیکھنے کے بعد جب اباجی ایک کو کریم اﷲ کہتے تو وہ مجیداﷲ نکلتااور جسے مجیداﷲ کہتے وہ کریم اﷲ نکلتا۔دونوں کو پہچان نہ پانے پراباجی پھر خود ہی ہنسنے لگ جاتے۔ ایک بار اباجی نے کسی شناخت کی بنیاد پر نہیں بلکہ تُکے سے ٹھیک نام بتا دیا کہ تم کریم اﷲ ہو تب کریم اﷲ نے بڑی مہارت سے کہہ دیا :نہیں پھوپھا جان میں تو مجیداﷲ ہوں۔اور اباجی انہیں پہچان نہ پانے پر ہمیشہ کی طرح ہنسنے لگے۔
بچپن میں میرا کسی سے جھگڑا ہوجاتا تو میں عام طور پر مبشّر کو مدد کے لئے بُلا لاتا تھا۔ایک بار پتہ نہیں کس بات پر میرا کریم اﷲ اور مجیداﷲ سے جھگڑا ہو گیا۔وہ دوبھائی‘میں اکیلا۔۔۔اتفاق سے مبشّر نے دور سے ہی یہ منظر دیکھااور از خود لپکا چلاآیا۔ آتے ہی اس نے دخل در معقولات کرتے ہوئے مجیداﷲ کو پکڑا اور اس کا سر ریت میں گھِسانے لگا‘اور مجھے بھی ہدایت کی کہ صرف مجیداﷲ پر ہی سارا زور لگاؤں۔اوپر سے کریم اﷲ ہم دونوں کو مار رہا تھا لیکن مبشّر یہی کہے جارہا تھا کہ مجیداﷲ پر ہی سارا زور لگاؤں۔۔۔۔۔ہم دونوں کے زور کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجیداﷲ نے رونا شروع کردیا۔مجیداﷲ کے روتے ہی کریم اﷲ نے نہ صرف ہمیں مارنا چھوڑ دیا بلکہ خود بھی رونے لگ گیا۔تب مجھے اندازہ ہوا کہ مبشّر صرف ایک ہی بھائی پر سارا دباؤ کیوں ڈال رہا تھا۔جڑواں بچوں کی محبت کا یہ بھی انوکھا رنگ تھا۔
مبشّرکی ’’پھوں پھاں‘‘ اور ’’ٹَے کا‘‘ بہت تھا اسی لئے اس کی دوستی سے مجھے فائدہ ہوجاتا تھا۔ایک بار پتہ نہیں کس بات پر ہمارا جھگڑا ہو گیا۔مبشّر نے پَتری کا ایک ننھا منّا سا چاقو مجھ پر تان لیا۔ میں نے وہیں سے دوڑ لگائی اور ناناجی کو جاکر بتایا کہ مبشّر مجھے چاقو مارنے لگا تھا۔ناناجی نے فوری کاروائی کے لئے ماموں سمیع اﷲ کو بھیجا۔ماموں سمیع نے آکر مبشّر کو ایک چپت رسید کی تو وہ کہنے لگا کہ میں تو صرف ڈرا رہا تھا۔ اس چاقو کی ’’خوفناکی‘‘ کااندازہ اس سے لگا لیں کہ ماموں سمیع نے اسی وقت مبشّر سے لے کر‘ انگلیوں سے مروڑ تروڑ کراسے دور پھینک دیا تھا۔
چھوٹے کزنز میں سے خالہ سعیدہ کی دوسری شادی سے ہونے والی پہلی بیٹی زاہدہ‘ماموں ناصر کی غزالہ‘ ماموں سمیع کی نوشی‘ ماموں صادق کی سمیرہ اور خالہ حبیبہ کا آصف مجھے زیادہ عزیز رہے ہیں۔ زاہدہ میرے چھوٹے بھائی اکبر سے بیاہی گئی اور میری چھوٹی بہن زبیدہ کی شادی کریم اﷲ سے ہوئی۔سمیرہ اور آصف مجھے اس لئے بھی عزیز رہے کہ دونوں نے کبھی شاعری شروع کی تھی۔ماموں صادق خود ایک عرصہ تک شاعری کرتے رہے تھے۔اس لئے مجھے لگتا تھا کہ سمیرا ماموں صادق کا شاعری کا ورثہ ضرور سنبھالے گی۔لیکن وہ تو کمپیوٹر ایکسپرٹ بن گئی۔شاعری کہیں بیچ میں ہی رہ گئی۔آصف کی شاعری سے عطا ء اﷲ خاں نیازی عیسیٰ خیلوی کی گلوکاری کی طرف دھیان جاتا تھا۔لیکن ابتدا میں ایسا ہونا بھی غنیمت تھا۔کچھ عرصہ تک آصف کو شاعری کا شوق رہا پھر اس کا بھی پتہ نہیں چلا۔
ماموں ناصر کی سب سے چھوٹی بیٹی بشریٰ ہما کو بیک وقت شاعری اور گلوکاری کا شوق ہے۔ایک دفعہ اس نے مجھے اور مبارکہ کو لتا جی کے چند گانے سنائے۔گانے سُن کر میں حیران رہ گیا۔بشریٰ نے بڑے اچھے انداز میں لتا جی کے گانے سنائے تھے لیکن میری حیرت کا پس منظر کچھ اور تھا۔دراصل ممانی آصفہ نے گھر کا ماحول بے حد مذہبی بنا یا ہواتھا ۔ٹیلی ویژن صرف ان اوقات میں آن کیا جاتا تھاجب اس پر تلاوت‘اذان‘ کوئی دینی پروگرام یا پھر خبر نامہ آرہا ہو۔ایسے ماحول میں بشریٰ نے اتنے گانے کیسے یاد کر لئے اور اپنی آواز میں اتنی پختگی کیسے پیدا کرلی؟میں نے اپنی حیرت کو چھپائے بغیر سیدھا سوال کر دیا تو بشریٰ نے شرماتے ہوئے بتایا۔۔۔بھائی جان!وہ اصل میں ناں ۔۔ ۔ وہ جب ٹی وی پر اذان لگتی تھی تو میں اذان کے ساتھ اپنی آواز اٹھاتی تھی اس طرح آواز پر گرفت ہوتی گئی۔پھر جب باجی غزالہ جرمنی چلی گئیں تو وہ اپنا چھوٹا ٹیپ ریکارڈرمجھے دے گئیں۔اس میں مہندر کپور کے گانوں کی ایک کیسٹ تھی۔اس کیسٹ میں وہ گانا بھی تھا’’نہ منہ چھُپا کے جیؤ اور نہ سر جھُکا کے جیؤ‘‘۔جب امی گھر پر نہیں ہوتی تھیں تو میں اسی گانے پر آواز اُٹھانے کی پریکٹس کرتی تھی۔یوں اب گانے کا شوق پورا کر لیتی ہوں لیکن امی سے چوری چھُپے۔آپ بھی امی کو نہیں بتائیے گا۔ان کے سامنے تو میں صرف دینی نظمیں سُر کے ساتھ پڑھتی ہوں۔
ماموں صادق کابیٹااویس میرے بڑے بچوں کے ایج گروپ کا ہے۔گزشتہ تین برس سے امریکی آرمی کی طرف سے اس کی جرمنی میں تعیناتی ہوئی تو اس سے بھی تھوڑی سی دوستی ہوگئی۔اس کے بچپن اور اپنے ’’عالمِ شباب‘‘کا ایک لطیفہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔میں خانپور سے کراچی گیا۔قیام ماموں صادق کے ہاں تھا۔اویس پانچ‘چھ سال کا تھا۔مجھے کافی دیر تک دیکھتا رہا ۔پھر میرے قریب آ کرکہنے لگا:بھائی! آپ ہیں تو آدمی ‘پر لگتے نہیں ہیں ۔میں اس کے جملے کی سادگی کا مزہ لے رہا تھا کہ ماموں صادق کہنے لگے : یار!تم شادی شدہ ہونے کے باوجود لڑکے ہی لگتے ہو۔اویس کی دانشمندی دیکھو کہ اس نے لڑکے میں چھُپے ہوئے مرد کو کیسے پہچان لیا ہے۔ماموں صادق کی وضاحت کے باوجود مجھے اویس کے جملے کی سادگی مزہ دیتی رہی۔اب جرمنی میں اویس آیا تو میں نے اسے اس کی بات یاد دلائی۔
غالب ؔ کو یہ گِلہ رہا کہ ’’آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا‘‘۔لیکن اب تو وہ زمانہ آگیا ہے کہ آدمی کو آدمی ہونا بھی میسّر نہیں ہے‘ آدمی یا تو روبوٹ بن گیا ہے یا جانور۔۔۔۔۔اویس کے آنے کے بعدایک بار میں شیو کر کے فارغ ہوا اور آئینے میں خود کو دیکھنے لگا تو مجھے اپنے ہی اندرسے آواز آئی:لگتے تم آدمی ہو ‘پر ہو نہیں۔
پتہ نہیں یہ میری اپنی آواز تھی
آدم کی روح کی آواز تھی
یا پھر روحِ کائنات کی !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*یادوں کا یہ حصہ دو ماہی’’گلبن‘‘احمد آباد کے شمارہ مئی ‘جون۱۹۹۹ء میں شائع ہوا تھا۔اسی مہینے میرا نعیمہ سے رابطہ ہوا۔پھر مبارکہ‘مانو‘اور میں ہم تینوں ہالینڈ گئے۔نعیمہ نے واضح کردیا کہ صالحہ اپنے کسی رشتہ دار سے ملنا نہیں چاہتی۔نعیمہ‘اس کے ڈچ شوہر اور دو پیارے سے بچوں نے ہمارا اچھا سواگت کیا۔ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ خالہ سعیدہ کی دونوں بیٹیاں(ماں کی کمی کے علاوہ)ہر طرح سے خوش و خرّم ہیں۔نعیمہ کی بیٹی نے تھوڑا سا دکھ کا اظہار کیا کہ میری ماں اپنی ماں کے سائے میں پلتی تو اچھا تھا۔تب میں نے اسے کہا شکر کروایسا نہیں ہوا ‘ورنہ تم دنیا میں ہی نہ آتیں اور نعیمہ‘صالحہ سرگودھا کے چک ۶۴ میں اُپلے تھاپ رہی ہوتیں۔میں نے یہ بات تو آسانی سے بتادی لیکن اُپلوں کے بارے میں سمجھانے میں خاصی مشکل پیش آئی۔ بعد میں نعیمہ نے بتایا کہ صالحہ نے مجھے اَلٹی میٹم دے دیا ہے کہ یا تو نئے دریافت ہونے والوں سے رشتہ داری رکھو‘ یا مجھ سے۔چنانچہ پھر یہ تعلق ٹوٹ گیا۔تاہم اس ملاقات سے جب یہ واضح ہوا کہ نعیمہ کی پاکستان سے روانگی کے وقت میری عمر صرف تین سال تھی تو مجھے اپنی یادداشت پر شدید حیرت ہوئی۔ایک بار پہلے بھی میں نے ماموں ناصر کو اپنے بچپن کے زمانے کی ایک بات کے بارے میں تھوڑا سا بتایا تھا۔وہ بات ایسی تھی کہ کوئی بزرگ اپنے بچوں سے ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔لیکن بات دلچسپ تھی۔ماموں ناصر میری بات سُن کر جیسے سنّاٹے میں آگئے۔پھر مسکرا کر کہنے لگے تمہارا دماغ شیطان کا دماغ ہے۔تب تم صرف ساڑھے تین سال کے تھے۔میرا خیال ہے اس کا تعلق حافظے سے زیادہ یاد سے وابستگی سے ہے۔کہیں کوئی بات حافظے سے چِپک جاتی ہے اور بس۔
***

پڑھنے سے پڑھانے تک

پڑھنے سے پڑھانے تک

عام طور پر ہر انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گو دہوتی ہے۔میری پہلی درسگاہ بھی میری ماں کی گود تھی۔ اور دوسرا اسکول اباجی کی خصوصی توجہ تھی۔جب ابا جی کی رحیم یار خان میں کپڑے کی دوکان تھی مجھے دوکان پر بلوالیا کرتے تھے اور اردو لکھنا پڑھنا سکھایا کرتے تھے۔جب کوئی فاش قسم کی غلطی ہوتی‘مجھے ایک تھپڑ پڑتا۔میں رونے لگتا تو اباجی پھر پیار کرنے لگتے۔پیسے دیتے۔۔پیسے ملنے پر میں بھاگ کر جاتا اور بازار کی قریبی دوکان سے کھانے کی کوئی چیز لے آتا۔جب تک وہ چیز کھاتارہتا‘ میری چھٹی رہتی۔چیز ختم ہوجاتی تو پھر پڑھائی شروع ہوجاتی۔یوں دن میں لگ بھگ چار پانچ دفعہ سبق بھولتا‘تھپڑ کھاتا‘پیار پاتا اور پھرچَنے‘مرونڈا‘میٹھی گولیاں‘مکھانے وغیرہ کھاتا۔سبق بھولنے میں تھوڑا سا نقصان تھا مگر بہت سارا فائدہ بھی تھا۔اب سوچتا ہوں تو اباجی کے تھپڑوں والا’’نقصان‘‘ہی مجھے سب سے بڑا فائدہ اور اپنا اثاثہ لگتا ہے۔
اباجی کی اس توجہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں اسکول میں داخل ہونے سے پہلے اخبار پڑھنے لگ گیا تھا۔جب مجھے اسکول میں داخلے کے لئے لے جایا گیا تو اسکول کے ہیڈ ماسٹر راجہ محبوب صاحب نے میرا ٹیسٹ لیا اور مجھے کچی‘پکّی کلاسوں کی بجائے سیدھا دوسری جماعت میں داخل کرلیاگیا۔پرائمری لیول پر میری پڑھائی کے سلسلے کی یہی ایک اہم بات تھی۔میں پڑھائی میں نہ اوّل درجہ کا طالب علم تھا ‘نہ نکمّا تھا۔بس اوسط درجے سے تھوڑا سا بہتر طالب علم تھا۔مڈل اسکول کے زمانے تک ہم لوگ خانپور آچکے تھے تھے۔کالونی مڈل اسکول خانپور ہمارے گھر کے قریب ہی تھا۔بروقت اسکول پہنچنے کی دُھن میں کئی بار ایسا ہوا کہ میں اسکول میں پہنچنے والاسب سے پہلا بچہ ہوتا ۔
ریاضی اور سائنس کے مضامین میں تو میں ہمیشہ سے نکّما رہاہوں۔عربی‘فارسی اور ڈرائنگ کے اختیاری مضامین میں مجھے عربی زیادہ مناسب لگی‘چنانچہ میں نے یہ مضمون چھٹی جماعت سے ہی لے لیا۔لیکن ہمارے عربی ٹیچر علّامہ عبدالخالق اشرفؔ صاحب اتنے متشدد نکلے کہ میں عربی سے ہی ڈرنے لگا۔چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک مجھے ضَرَبَ ضَرَبَ کی گردان یاد نہیں ہو سکی اور میں تین سال تک علّامہ صاحب کی ضربِ شدید کا نشانہ بنا رہا۔ہائی اسکول میں جاکر جیسے ہی پتہ چلا کہ یہاں عربی کا مضمون چھوڑ سکتا ہوں‘میں نے فوراََ خدا کا شکر ادا کیا۔بعد میں دیکھا کہ یہاں کے عربی ٹیچر مولوی خدا بخش صاحب بہت ہی نرم دل اور شفیق انسان تھے۔مڈل اسکول میں ماسٹر فریدی صاحب مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔ آئیڈیل ٹیچر تو نہیں لیکن کسی حد تک ایسے ہی تھے۔دو اور ٹیچرز کے نام یاد نہیں رہے البتہ ان کے چہرے اور میرے تئیں ان کے رویے مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔میں ساتویں جماعت میں تھا۔ایک ٹیچر جنرل سائنس اور ریاضی پڑھاتے تھے۔مجھے انتہائی نکمے لڑکوں میں شمار کرتے۔ایک بار کسی اور مضمون کے ٹیچر کی غیر موجودگی کے باعث انہیں ہماری کلاس لینی پڑی۔یہاں انہوں نے جو پہلا سوال پوچھا میں نے فوراََ اس کا جواب بتادیا تو ہلکا سا مسکرائے اور بولے: کمال ہے تمہیں بھی اس کا جواب آتا ہے۔لیکن پھر کبھی وہ حیران اور کبھی پریشان ہونے لگے جب میں ہر سوال کے جواب میں ہاتھ کھڑا کرنے لگا۔وہ بھی ہربار مجھ سے ہی کہہ دیتے کہ بتاؤ کیا جواب ہے‘ اور ہربار میرا جواب درست ہوتا۔دوسرے ٹیچر غالباََ اسکول کے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر بھی تھے۔پھر ہیڈ ماسٹر ہوئے ۔بعد میں تحصیل دار ہو کر محکمہ تعلیم سے چلے گئے۔یہ مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔بے حد نفیس اور شفیق۔مجھے کلاس کے اچھے بچوں میں شمار کرتے تھے۔ایک دن انہیں جنرل سائنس کی کلاس لینی پڑی تو انہیں اس مضمون میں میری نالائقی کا اندازہ ہو گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہم لوگ بے حد بھیانک غربت کی زد میں آئے ہوئے تھے۔سردیوں کے دن آرہے تھے اور میرے پَیروں میں ہوائی چپّل تھی۔تب خالہ حبیبہ نے اپنے پرانے ’’کوٹ شوز‘‘مجھے دیدئیے۔خالہ حبیبہ کے پاؤں ہمیشہ سے چھوٹے ہیں۔اسی لئے مجھے وہ ’’کوٹ شوز‘‘پورے آگئے اور میری سردیاں آرام سے گزر گئیں۔اسکول کے بعض لڑکوں نے میرا مذاق بھی اڑایا لیکن اس مذاق کی تکلیف سردیوں میں ہوائی چپل پہننے کی تکلیف سے کم تھی۔اس لئے اسے برداشت کرلیا۔برداشت نہ بھی کرتا تو کیا کرلیتا۔گھریلو حالات کو دیکھتے ہوئے میری یہ عادت بن گئی کہ نئے تعلیمی سال پر اپنی پچھلی کلاس کی کتابیں سیکنڈ ہینڈ قیمت پر بیچ دیتا اور نئی کلاس کی کتابیں کسی اپنے جیسے لڑکے سے آدھی قیمت پر خرید لیتا۔ اسکول کی کاپیوں کے سلسلے میں میرایہ طریقِ کار رہا کہ کاغذوں کے دستے خرید کر ہاتھ سے ان کی کاپیاں بنا لیتا۔ والدین نے کبھی ایسا کرنے کو نہیں کہا ‘لیکن میں نے ممکنہ حد تک کوشش کی کہ والدین پر کم سے کم بوجھ ڈالوں۔
میں اسکول کی بزمِ ادب میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہاہوں۔ایک بار خانپور تحصیل کے مڈل اسکولوں میں‘ شاید آٹھویں جماعت تک کے تمام طلبہ کے لئے تقریری مقابلہ ہوا۔میں اس مقابلے میں اوّل آیا۔انعام میں ایک ٹیبل لیمپ اور علامہ اقبال کی ’’بانگِ درا‘‘دو چیزیں ملیں۔ٹیبل لیمپ ہمارے ایک ٹیچر ہاشمی صاحب نے رکھ لیا(ہاشمی صاحب بعد میں ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی بنے)میرے لئے ’’بانگِ درا‘‘ہی کافی تھی اس تقریری مقابلے میں تقریر کا عنوان تھا’’کھیل کے میدان میں کردار کی تشکیل‘‘۔تب میری ساتویں جماعت کا سال ختم ہونے کے قریب تھا۔میری تقریر مجھے ابا جی نے لکھ کر دی تھی اور تیاری بھی انہوں نے کرائی تھی۔اپنی کلاس میں بیت بازی کے مقابلوں میں میری اہمیت ہمیشہ بنی رہی۔
آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد مجھے گورنمنٹ ہائی اسکول خانپور میں داخلہ مل گیا۔اس اسکول میں داخل ہونا میرے لئے اس وجہ سے زیادہ خوشی کا باعث تھا کہ کبھی اباجی بھی اسی اسکول میں پڑھ چکے تھے۔نویں جماعت میں ہمارے کلاس ٹیچر محمد خان صاحب تھے۔ڈیرہ غازی خاں کے علاقہ کے رہنے والے تھے۔انہوں نے پہلے دن کلاس کے ہر طالب علم سے اس کے تعارف کے ساتھ اس کے رجحان کے بارے میں معلومات حاصل کی۔جب مجھ سے پوچھا گیا کہ بڑے ہو کر کیا بننے کا ارادہ ہے؟تو میں نے بے اختیارانہ طور پر کہا کہ اردو کی خدمت کروں گا۔تب محمد خان صاحب نے کہا:بابائے اردو کا جانشین بننے کا ارادہ ہے۔ حالانکہ اس وقت ادبی دنیا میں آنے کی بات میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔محمد خان صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جو تبصرہ کیا تھا ‘مجھے لگتا ہے اندر ہی اندر لا شعوری طورپر اس نے میری حوصلہ افزائی کی تھی۔ صرف پانچ چھ ماہ کے بعد ہی محمد خان صاحب کا تبادلہ ہوگیا تو محمد صدیق صاحب ہمارے کلاس ٹیچر بنے۔صدیق صاحب ہائی اسکول میں میرے سب سے زیادہ پسندیدہ ٹیچر تھے۔اسکول کے زمانہ کے ایک عرصہ بعد جب میں ادبی رسالوں میں چھپنے لگا تھا ‘ایک بار ریڈیو بھاولپور سے ایک ادبی پروگرام کرکے واپس آرہا تھا‘یہ وہ عمر تھی جب ریڈیو پر اپنی کوئی غزل یا افسانہ پڑھنے کو میں اپنی معراج سمجھتا تھا۔ٹرین میں صدیق صاحب مل گئے۔میں انہیں اپنی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں جوش و خروش سے بتانے لگا۔ میرا خیال تھا وہ میری حوصلہ افزائی کریں گے۔لیکن وہ مجھے یہ بتانے لگے کہ ان کے شاگردوں میں فلاں فلاں ڈاکٹر بن گئے۔فلاں فلاں انجینئر بن گئے۔۔۔۔مقابلے کا امتحان پاس کر گئے۔اپنے ایسے شاگردوں کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کا سر فخر سے بلند ہورہا تھااور میں اپنے آپ سے شرمندہ ہو رہا تھا۔
ہائی اسکول میں مولوی خدا بخش صاحب(اگر میں نام بھول نہیں رہا تو یہی نام تھا)اصلاََ عربی اور اسلامیات کے ٹیچرتھے۔ تھوڑے عرصہ کے لئے انہوں نے ہماری اردو کلاسز لی تھیں۔اردو پڑھاتے ہوئے‘ خصو صاََ اشعار کی تشریح کرتے ہوئے مزے مزے کی باتیں کر جاتے۔ہماری اردو کی نصابی کتاب میں مولانا چراغ حسن حسرتؔ کا مشہور مزاحیہ مضمون’’لکڑی کی ٹانگ‘‘بھی شامل تھا۔یہ مضمون ان کے مضامین کے مجموعہ’’کیلے کا چھلکا‘‘ سے لیا گیا تھا۔مضمون کی ریڈنگ کے بعد اس پر بات شروع ہوئی تو میں نے کہا :یہ ’لکڑی کی ٹانگ‘۔۔۔’کیلے کے چھلکے‘سے حاصل کی گئی ہے۔مولوی صاحب میرا جملہ سُن کر محظوظ ہوئے ۔مجھے دوتین بار ایسے شاباش دی جیسے داد دے رہے ہوں۔
۱۹۶۸ء میں دسویں کا امتحان پاس کرتے ہی میں نے حئی سنز شوگر ملز جیٹھہ بُھٹہ ‘خانپورمیں مزدوری کرلی۔ تب ایک صاحب نے پیش کش کی کہ حیدر کالج میں پڑھنا چاہے تو اس کے جملہ تعلیمی اخراجات کا ذمہ میں لیتا ہوں۔لیکن میرا مسئلہ کالج کی تعلیم سے زیادہ اباجی کے بوجھ کو بانٹنا تھا۔یہ الگ بات کہ اس سلسلے میں کوئی قابلِ ذکر خدمت کر ہی نہیں سکا۔زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ابا جی کے سر پر ایک من کا وزن تھا اورمیں نے اس میں سے ایک چھٹانک وزن کم کردیا۔میں نے شوگر مل میں ۱۹؍سال تک مزدوری کی ۔نوکری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر اپنا سلسلۂ تعلیم جاری رکھا۔خدا کے فضل اور امی‘ ابو کی دعاؤں سے ۱۹۷۰ء میں ایف اے‘۱۹۷۲ء میں بی اے اور ۱۹۷۴ء میں ایم اے (اردو)کرلیا۔(سال ۱۹۷۴ء کا ایم اے کا امتحان ۱۹۷۵ء میں منعقد ہوا تھا۔تاہم میرے امتحان کا سیشن ۱۹۷۴ء شمار ہوتا ہے)۔
شوگر مل میں طویل عرصہ تک مزدوری کرنے کے بعدمجھے پاکستان انٹر نیشنل پبلک اسکول اینڈ کالج ایبٹ آباد میں اردو پڑھانے کی جاب ملی۔یہاں پر سرکاری لیکچرر کے گریڈ کے ساتھ مزید بہت ساری مراعات تھیں۔فری رہائش‘فری بجلی‘پانی‘تین وقت کا پکا پکایا کھانا جو تینوں وقت گھر پر پہنچایا جاتا تھا۔میں نے مبارکہ سے کہا کبھی بنی اسرائیل پر من و سلویٰ اترتا تھا۔ خدا نے ہم جیسوں پر بھی فضل فرما دیا ہے۔ہمیں بھی من و سلویٰ عطا ہو رہا ہے۔بنی اسرائیل کو تو وہی مخصوص ڈشیں مل رہی تھیں جن کی یکسانیت سے تنگ آکر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لہسن‘پیاز اور مسور کی دال کی فرمائش کرنے لگے تھے۔جبکہ ہمیں تو ہر بار نئی ڈشیں نصیب ہو تی تھیں۔اُن نعمتوں پر آج بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور اُس تعلیمی ادارہ کے مالک اور پرنسپل بریگیڈئیر اعجاز اکبر صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اﷲ انہیں خوش رکھے۔
مجھے نویں‘دسویں‘کیمرج اور ایف ایس سی کی کلاسوں کو اردو پڑھاناہوتی تھی۔پڑھانے کا تجربہ ہوا تو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ میں تو خود از سرِ نَو پڑھائی کر رہا ہوں۔بچوں کو پڑھانے سے پہلے خود پوری تیاری کرنا۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ میں استاد سے زیادہ ایک اچھا طالب علم بن رہا ہوں۔طالب علموں کے ساتھ میرا رویہ مدرّسانہ سے زیادہ دوستانہ تھا۔اس کا مجھے فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔فائدہ یہ ہوا کہ طلبہ مجھ سے مانوس ہو گئے اور اپنے بعض مسائل کے سلسلے میں مجھ سے مشورہ مانگنے لگے۔اور تو اور ایک سینئر طالب علم نے اپنے ایک عشق کے سارے کوائف مجھے بتا کر مشورہ مانگا۔لڑکے کی سنجیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں نے اسے مناسب مشورہ دے دیا۔نقصان یہ ہوا کہ بعض اساتذہ مجھ سے حسد کرنے لگے۔ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ بعض طلبہ ضرورت سے زیادہ بے تکلف ہونے لگے۔باہر تک تو خیر تھی‘کلاس روم میں بھی ان کی بے تکلفی بڑھنے لگی۔جملے بنانے کی مشق کے دوران بے تکلف طلبہ کچھ زیادہ ہی کھلنے لگے۔بعض جملے جان بُوجھ کر غلط بناتے ‘ جو غلط ہو کر بھی بامعنی ہوتے تھے اور ان سے جملہ بنانے والے کی ذہانت عیاں ہوتی تھی۔اس وقت مجھے جو جملے یاد آرہے ہیں ‘درج کر رہا ہوں۔
پیٹھ پیچھے برائی کرنا : کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنے سے گناہ ہوتا ہے اور ایڈز کی بیماری بھی ہو جاتی ہے۔
کار گذاری: بارش کی وجہ سے بہت کیچڑ ہو گیا تھا اور میں نے بڑی مشکل سے پُل پر سے کار گذا ری
مت ماری جانا: ڈاکو نے اپنی بہن کو سمجھاتے ہوئے کہا تم مفت میں میرے ساتھ مت ماری جانا۔
پو پھٹنا: جنگل میں شیر کو دیکھتے ہی میری پو پھٹ گئی۔
سٹاف روم میں ہم دوست اساتذہ ایسے جملوں پر دل کھول کر ہنستے۔ایسے ہی ایک موقعہ پر سائنس کے کسی استادنے ’داشتہ آید بکار‘ کا مطلب پوچھا تو ایک ذہین استاد طیّب صاحب نے کہا پوری مثل یوں ہے ’’اہلیہ آید بہ تانگہ ‘داشتہ آید بہ کار‘‘ اور مطلب بالکل واضح ہے۔
میری تعلیم سرکاری اسکولوں کے جس ماحول میں ہوئی تھی پاکستان انٹر نیشنل پبلک اسکول اینڈ کالج کا ماحول اس سے بالکل مختلف تھا۔اعلیٰ تعلیمی معیار کی حامل اس درسگاہ میں لکھ پتیوں اور کروڑپتیوں کے بچے زیادہ تھے۔میں ٹاٹ اسکول سے اپنی پڑھائی شروع کرنے والا ،انگلش میڈیم ماحول میں پڑھا رہا تھا۔
وہ بھی زندگی کا ایک تجربہ تھا اور یہ بھی زندگی کا ایک تجربہ تھا۔
***

بندۂمزدور کی اوقات

بندۂمزدور کی اوقات


۱۹۶۸ ؁ء میں جب میں نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا ‘میری عمر ۱۶ سال ہو چکی تھی جبکہ سرکاری کاغذات کے مطابق میں ابھی ۱۵ برس کا ہوا تھا۔رزلٹ آنے کے بعد میں نے گھر والوں کو بتایا کہ میں اب ملازمت کرنا چاہتا ہوں اور ملازمت کے ساتھ اپنی پڑھائی کا سلسلہ بھی پرائیویٹ طور پر جاری رکھوں گا۔تب ابا جی نے حئی سنز شوگر ملز کے جنرل مینجر عزیز حسین کی بیگم سے بات کی ‘انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ملازمت کرنے کی بات سن کر کہنے لگیں:ہائے ۔۔۔ہائے وہ تو ابھی بالکل ہی بچہ ہے۔۔۔۔۔بہر حال ان کی سفارش پر مجھے شوگر مل میں لیبارٹری سیمپلر کی مزدوری مل گئی۔یہ شاید مشقت کے لحاظ سے کافی آسان مزدوری تھی۔اس مزدوری کو پانے کے لئے مجھے اُس وقت سول ہسپتال خانپور کے ڈاکٹر محمد اکبر ملک سے اپنی عمر کا ایک سرٹیفیکیٹ لینا پڑا‘جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ لڑکا اٹھارہ سال کا ہوچکا ہے۔اس سرٹیفیکیٹ کے حصول کے لئے مجھے مبلغ۲۰روپے’’فیس‘‘کے طور پر ادا کرنے پڑے تھے اور ڈاکٹر صاحب نے میری نبض دیکھ کر ہی سرٹیفیکیٹ جاری کردیا تھا۔لیب سیمپلر کی حیثیت سے میری تنخواہ ۷۸روپے ماہانہ تھی۔ڈھائی مہینے کے بعد مجھے لیبارٹری بوائے بنا دیا گیا اور تنخواہ ۱۰۴روپے ماہانہ ہوگئی۔تین سال کے بعد لیبارٹری انالسٹ کی ترقی ملی تو میری تنخواہ ۱۵۰روپے سے ۲۰۰روپے ماہانہ کے لگ بھگ ہو گئی‘ اسی دوران میں ۱۹۷۴ ؁ء کے سیشن تک اپنے ایف اے‘بی اے اور ایم اے کے امتحان پاس کر گیا۔
جب مبارکہ اور بچے جرمنی آنے والے تھے چھوٹے بیٹے ٹیپو کی عمر تقریباََ آٹھ سال تھی۔شعیب نے اس سے پوچھا کہ آپ جرمنی کیسے جائیں گے؟تو ٹیپو نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا۔۔’’یا ہوائی جہاز سے جائیں گے یا تانگے سے جائیں گے‘‘ٹیپو کی یہ بات اس لئے یہاںیاد آگئی کہ اس سے ملتا جلتا اپنے مَن کا بھولپن یاد آ گیا ہے۔دسویں کا رزلٹ آنے سے پہلے میں من ہی من میں ارادہ بنایا کرتا تھاکہ نوکری کے ساتھ پڑھائی کروں گا۔یا تو گریجوایشن کے بعد مقابلے کے امتحان میں بیٹھوں گا اور ایک دن ڈپٹی کمشنر بنو ں گا‘یاپھر وٹرنری ڈاکٹر بن جاؤں گا۔ڈپٹی کمشنر بننے کی آرزو تو پھر بھی ممکنات میں سے تھی لیکن وٹرنری ڈاکٹر بننا تو ممکن ہی نہیں تھا۔دسویں میں میرے مضامین آرٹس گروپ کے تھے۔اس میں جنرل سائنس کا مضمون بھی میں نے مر مر کرپاس کیا تھا۔وٹرنری ڈاکٹر بننے کے لئے تو ایف ایس سی کرنا پہلی سیڑھی تھی جو میرے لئے بذریعہ تانگہ جرمنی جانے سے زیادہ مشکل تھی۔بہر حال شوگر مل کی نوکری کے پہلے دن جب مجھے لیبارٹری کی کھڑکیوں کے شیشوں اور فرش کی صفائی کرنا پڑی تو میرے اندر کے ڈپٹی کمشنر اور وٹرنری ڈاکٹر دونوں کی موت واقع ہو گئی۔صفائی کرتے ہوئے‘اپنے دوسرے ساتھیوں سے منہ چھُپا کر میں ان دونوں کی موت پر باقاعدہ آنسوؤں سے روتا رہا۔
اس ملز کی شفٹوں کی ڈیوٹی کے اوقات کار یوں تھے:صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک کی شفٹ ‘شام چھ بجے سے نصف شب دو بجے تک کی شفٹ اور رات دو بجے سے صبح دس بجے تک کی شفٹ۔ہر ہفتے کے بعد شفٹ تبدیل ہو جاتی۔ملازمت بھی سیزنل تھی۔گنے کا سیزن ختم ہو جاتا تو ہمیں فارغ کردیا جاتا۔اس کا فائدہ یہ ہواکہ ان فارغ مہینوں میں مجھے اپنی پڑھائی پر زیادہ دھیان دینے کا موقعہ مل جاتا۔ ۱۹۷۱ء میں میری شادی ہو گئی۔شادی کی خبر سُن کر ہمارے چیف کیمسٹ نے کہا :تم تو کہتے تھے کہ نوکری کے ساتھ پڑھائی جاری رکھوں گا‘اب شادی کے بعد کیسے پڑھ سکو گے؟میں نے کہا جی اگلے سال مجھے بی اے کا امتحان تو دینا ہی دینا ہے۔چنانچہ ۱۹۷۲ء میں جب میں نے بی اے کا امتحان دے دیا اور اسے پاس بھی کر لیاتو اُس وقت کے چیف کیمسٹ کوثر صاحب حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ہوئے۔اسی کیفیت میں انہوں نے مجھے اسی وقت ایک سو روپے کا انعام دیا۔میں نے رقم لینے میں ہچکچاہٹ کی تو کہنے لگے یہ انعام ’’سٹوڈنٹ حیدر‘‘ کے لئے ہے۔یہ انعامی رقم اس لحاظ سے مفید رہی کہ مجھے ایم اے کے کورس کی کتابیں خریدنے میں آسانی ہو گئی۔ایم اے کرنے کے بعد مجھے بطور لیبارٹری انالسٹ مستقل کردیا گیا۔اب میری ملازمت سیزنل نہیں رہی تھی۔
عملی زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے بعد میرے اندر نا انصافی کے خلاف بغاوت کے خیالات پرورش پانے لگے تھے لیکن مجھے ایک خاص اخلاقیات اور چند اصولوں کا پاس بھی تھا۔ملز انتظامیہ مجھے نظر انداز کر رہی تھی۔ایک حد تک ان کی مجبوری جائز لگتی کہ میں نے تو ایم اے اردو کیا ہے اور میری ملازمت کی لائن لیبارٹری کی ہے۔ایم اے اردو اور لیبارٹری کا کوئی جوڑ ہی نہیں۔لیکن ایک عرصہ کے بعد جب اُس وقت کی ملز انتظامیہ کے بیس بائیس سال کی عمروں کے چار پانچ نوجوان بھانجے‘بھتیجے اور بیٹے آفیسرز کیڈر میں آئے اور مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ سارے کے سارے میٹرک اور انڈر میٹرک نوجوان ہیں تو مجھے ملز انتظامیہ کے خلاف اپنی ساری برہمی جائز لگنے لگی۔اگر وہ لوگ چاہتے تو مجھے لیبارٹری سے مین آفس میں ٹرانسفر کرکے اس طرح کی ملازمت دے سکتے تھے۔لیکن یہ تو بہت بعد کے زمانے کی بات ہے۔بات یہ ہورہی تھی کہ میرے اندر بغاوت کے افکاربھی پرورش پانے لگے تھے اور مجھے ایک خاص اخلاقیات کا پاس بھی تھا۔اسی دوران ملز میں مزدور یونین قائم ہوئی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔تھوڑے عرصہ کے بعد دیکھا کہ جو لوگ یونین بنانے والے تھے ان میں سے بیشتر کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور بعض نئے چہرے سامنے آگئے ہیں۔جب یونین کے صدر رانا محمد حسین اور جنرل سیکریٹری نذیر احمد بنے تو مزدوروں کے لئے خاصی مراعات حاصل کی گئیں۔یہ لوگ کسی سیاسی لیڈر یا مذہبی پِیر کی طرح مزدوروں میں مقبول ہوگئے۔
ہماری لیبارٹری کے عملہ میں عام مزدوروں کے مقابلہ میں تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگ تھے۔بعض دوستوں نے کہا کہ جب جمہوری طریقِ کار ہے تو ہم بھی یونین کے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ اس سلسلہ میں ہمارے دو لیبارٹری کیمسٹ عبدالمجید اور مہدی حسن پیش پیش تھے۔مہدی حسن نے انڈیا سے بی ایس سی کیا تھا۔خوبصورت اور نازک سے نوجوان تھے۔حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے تھے۔۱۹۶۵ء کے بعد یہ لوگ پاکستان آئے تھے اور تھوڑی سی مشکلات کے بعد قانونی تحفظ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔عبدالمجید اور مہدی حسن دونوں نے مزدور یونین کے الیکشن میں بحیثیت صدر اور جنرل سیکریٹری کھڑے ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تو رانا محمد حسین اور نذیر احمد دونوں بھڑک اُٹھے۔انہوں نے ملز کے گیٹ پر ایک پبلک میٹنگ کی جس میں ان دونوں پر ملز انتظامیہ سے ساز باز کرنے کا الزام لگایا۔مجید صاحب کو پکڑ کر لے گئے۔پبلک میٹنگ میں ان پر الزامات عائد کرتے ہوئے ان سے جواب طلبی کی گئی۔انہوں نے جمہوری طریقِ کار کی بات کرنا چاہی لیکن ہُوٹنگ کراکے انہیں بولنے نہیں دیا گیا۔مزید زیادتی یہ کی گئی کہ ان کے منہ پر سرِ عام تھوڑی سی سیاہی مَل دی گئی۔یہ سانحہ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا۔میں خود مزدور تھا‘مزدوروں کے حقوق کے لئے آئینی اور قانونی طریقے سے لڑنے کے لئے بھی تیار تھا لیکن ایسے غیر جمہوری عمل اور کھلم کھلا غنڈہ گردی کے باعث میں اس مزدور یونین کے ایسے لیڈروں کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔
یہ سب کچھ در اصل عوامی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دی گئی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ تھا۔رانا محمد حسین ‘پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں میں شامل تھے۔گویا حکومتی سرپرستی کے سا تھ انہیں اپنی پارٹی کا تحفظ بھی حاصل تھا۔ان ساری طاقتوں کو مزدور کے مفاد میں استعمال کرنا چاہئے تھالیکن رانا محمد حسین اور نذیر احمد نے اپنے مخالفین کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے بعد جب بھی الیکشن ہوتے یہ دونوں عہدیدار ہمیشہ بلا مقابلہ صدر اور جنرل سیکریٹری کے عہدوں پر کامیاب ہوتے۔رانا محمد حسین اور نذیر احمد دونوں بحیثیت ملازم اب اپنی ڈیوٹی نہیں کرتے تھے۔بعض اکھڑ قسم کے مزدوروں کو انہوں نے اپنے محافظینِ خاص بنا لیا ۔ان محافظین کی یہ ڈیوٹی تھی کہ جہاں بھی کوئی مذکورہ دونوں لیڈروں کے خلاف بات کرے اس کی وہیں سرکوبی کر دی جائے۔ دہشت گردی کا یہ رویہ آگے چل کر پوری مزدور تحریک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔
جب جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت کا خون کرکے ملک میں مارشل لانافذ کیا تو مزدوروں کے معاملہ میں حکومت کا رویہ بالکل بر عکس ہو گیا۔بھٹو کے دور میں جتنی بے جا رعائت دی گئی تھی اب اس سے بھی زیادہ بے جا سختی کی جانے لگی تھی۔ہمارے لیب کیمسٹ عبدالمجید جو مزدوروں کے تشدد کا نشانہ بن چکے تھے‘اب لیب انچارج کے عہدہ پر فائز تھے۔اب وہ ہمارے نئے چیف کیمسٹ نذیر صاحب کے ستم کا نشانہ بنے ۔انہوں نے بھری لیبارٹری میں سرِ عام مجید صاحب کی بے عزتی کی۔یہاں تک کہ مجید صاحب آنسوؤں سے روتے ہوئے لیبارٹری سے باہر نکل گئے۔مجھے جب اس زیادتی کا علم ہوا میں نے لیبارٹری کے سارے عملہ کو یک جا کرنے کی کوشش کی۔ایک ساتھی بشیر باجوہ نے مجھے صاف لفظوں میں کہا کہ مجید کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو۔وہ اسی لائق ہے۔اسے بچاؤگے تو وہ بچانے والوں کو ڈبودے گا۔چیف کیمسٹ نذیر صاحب سے میرے ذاتی مراسم خوشگوار تھے لیکن میں نے تہیہ کر لیا کہ مجید صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تلافی کراکے رہنا ہے۔ہم نے مہم شروع کی تو مزدور یونین بھی ہماری مدد کو آگئی۔جنرل ضیا کا دور آنے کے بعد شاید یونین کو ہم جیسے لوگوں کی ضرورت پیش آگئی تھی۔ہم نے چیف کیمسٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردینے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مجید صاحب نے نہ صرف چیف صاحب سے صلح کرلی بلکہ جارحانہ انداز میں مجھ پر حکم بھی چلانے لگے۔چند دنوں کے بعد انہیں لیب انچارج سے ترقی دے کر شفٹ کیمسٹ بنا دیا گیا۔لیکن میں تو انتظامیہ کے عمومی رویے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہواتھا۔ میرے لئے اب بیٹھ جانا مناسب نہ تھا۔ملز انتظامیہ اور مزدوروں کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہا تھا۔اسی دوران ایک دن جنرل مینجر سعید صاحب نے مجھے لیبارٹری سے باہر ’’پین اسٹیشن‘‘پر بلوایا۔وہاں انتظامیہ کے بیشتر افسران تشریف فرما تھے۔میں وہاں پہنچا تو کسی رسمی علیک سلیک کے بغیر جنرل مینجر سعید صاحب نے مجھ پر چڑھائی شروع کردی۔انہوں نے انتہائی غلیظ گالیاں بکتے ہوئے مزدوروں میں پائی جانے والی ساری گڑ بڑکا ذمہ دار مجھے قرار دیا۔یہ وار اتنا اچانک ہوا تھا کہ میں ہکّا بکّا رہ گیا۔اس زیادتی نے مجھے رانا محمد حسین اور نذیر احمد سے مزید قریب کردیا۔
یہ ۱۹۷۹ء کا زمانہ تھا۔ تب جنرل ضیا نے کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں مزدوروں پر اندھا دھند فائرنگ کراکے اور سینکڑوں مزدوروں کا قتلِ عام کراکر اصلاََپورے ملک کے مزدوروں کو وارننگ دے دی تھی۔اس کے باوجود مجھے گالیاں دئیے جانے والے سانحہ کے بعد دس ‘بارہ دن کے اندر ملز کے مزدوروں نے بعض افسران کی زور دار اور سرِعام پٹائی کردی۔جن اہم افسران کی پٹائی ہوئی ان میں کین مینجر‘چیف انجینئر اور چیف کیمسٹ بطور خاص شامل تھے۔گنے سے چینی تیار کی جاتی ہے اور گنّوں سے ہی ان مزدور دشمن افسران کی مرمت ہوئی کین مینجر کا پیشاب ہی خطا نہیں ہوا‘ پتلون بھی گندی ہوگئی۔چیف کیمسٹ کو مزدوروں نے گیٹ پر روکا اور پکڑ کر جیپ سے اتارا۔انہوں نے منت کی کہ مجھے مت مارنا۔مزدوروں نے کہا آپ ناچ کر دکھاؤ تو نہیں ماریں گے۔چنانچہ چیف صاحب نے تھوڑا سا بھدہ ڈانس کیا۔اس کے باوجود مزدوروں نے تو انہیں مارنا ہی تھا‘سو بھدے ڈانس سے ناراض ہو کر انہیں بھی مارا پیٹا گیا۔جنرل منیجر اس مار سے بچ نکلے جس کا مجھے افسوس ہوا۔یہ سب کچھ میری اخلاقیات کے خلاف تھالیکن میرے ساتھ ہونے والی ملز انتظامیہ کی غنڈہ گردی سے لے کر کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے سینکڑوں بے گناہ مزدوروں کے قتلِ عام تک مزدوروں کے ساتھ ملز انتظامیہ کے عمومی رویے کو سامنے رکھیں تو یہ سب کچھ جائز تھااور اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔تنگ آمد بجنگ آمد۔
اس واقعہ کے وقت ہم لوگ ملز ایریا سے دُور اپنے اپنے گھروں میں تھے۔اس کے باوجود مقدمات درج ہوئے۔مقامی تھانے میں پندرہ مزدوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی۔’’این آئی آر سی‘‘جو مزدوروں کے معاملات کی سب سے بڑی عدالت ہے اور جس کے فیصلے کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں جا سکتے ہیں‘وہاں پندرہ کی بجائے صرف سات مزدوروں کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا۔یہاں رانا محمد حسین اور نذیر احمد کے ساتھ میرا نام بھی شامل تھا۔اسی دوران ملز انتظامیہ نے شہر کی سرکاری انتظامیہ کی مدد سے ایک پاکٹ یونین تیار کر لی جو ہماری یونین کے مقابلے میں سرکاری طور پر تسلیم کرالی گئی۔ اس یونین کے خاص عہدیداروں میں الطاف احمد اور اظہر ادیب طبعاََ اچھے انسان تھے۔اظہر ادیب تو شاعر بھی ہیں۔بعد میں جب ہماری دوستی ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ بعض ادبی رسائل میں تھوڑا بہت چھپے تھے لیکن پھر ادبی دنیا سے ان کا رابطہ نہ رہا۔میرے ساتھ دوستی ہوئی تو نہ صرف شاعری میں متحرک ہوئے بلکہ ادبی رسائل میں بھی چَھپنے لگے۔میں نے خانپور سے’’جدید ادب‘‘جاری کر رکھا تھا۔اظہر ادیب سے بھاولپور سے ’’اسلوب‘‘جاری کرایا۔اس کے صرف تین شمارے چَھپ سکے۔۔۔۔۔لیکن فی الوقت بات ہورہی تھی شوگر مل کی مزدور یونینوں کی۔۔۔
ہمارے مقابلے میں قائم کی گئی پاکٹ یونین نے کچھ رانا محمد حسین کی یونین کی پرانی زیادتیوں کی تشہیر کرکے‘کچھ مزدوروں کو مراعات دلاکے اور کچھ ڈرا دھمکا کے اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش شروع کی لیکن ان کی بے حد محنت کے باوجود انہیں کامیاب ہونے میں خاصا وقت لگ گیا۔ملز انتظامیہ نے ایک طرف رانا محمد حسین ‘ نذیر احمد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات دائر کررکھے تھے دوسری طرف دونوں لیڈروں کا ملز کے اندر داخلہ ممنوع کر رکھا تھا۔یوں انہیں مزدوروں سے بالکل الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔تیسری طرف پاکٹ یونین کی کاروائیاں جاری تھیں۔’’این آئی آر سی ‘‘والا مقدمہ خاصا پریشان کن تھا۔مختلف اطراف سے ایسے دباؤ بنانے کے بعد ملز انتظامیہ نے رانا محمد حسین سے اپنی شرائط پر ’’مفاہمت‘‘کی بات چیت شروع کی۔یہ وہ وقت تھا جب نذیر احمد جنرل سیکریٹری بھی تھک ہار کر گھر میں بیٹھ گئے تھے۔رانا محمد حسین ملز انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کے لئے بالکل تنہا رہ گئے تھے۔ان کے سارے وفادار‘جاں نثاراور مرتے دَم تک ساتھ نبھانے کے دعویدار ساتھی غائب ہو گئے تھے ۔ایسے وقت میں صرف حیدر قریشی تھا‘جس کے پاس وہ آتے‘مجھے ساتھ لیتے اورملز انتظامیہ سے معاملہ طے کرنے جاتے۔کبھی اسی یونین نے محض اصولی اختلاف کرنے اور غیر مشروط فرماں برداری سے انکار کرنے کے جرم میں مجھے مزدور دشمن‘انتظامیہ کا ایجنٹ‘غدار اور پتہ نہیں کیسے کیسے اعزازات سے نوازا تھا اور آج یہی یونین اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی تو میں ہی تھا جو اس کی زندگی کی دعا مانگ رہا تھا اور ممکنہ حد تک دوا کے لئے بھی تگ و دو کر رہا تھا۔اسی دوران مجھے اباجی کے ذریعے‘انور صاحب ڈسٹلری انچارج کے ذریعے اور چوہدری فضل صاحب گوڈان انچارج کے ذریعے خوشنما آفرز دئیے گئے۔ایک بار تو خود چیف کیمسٹ نذیر صاحب نے بھی براہِ راست مجھے پیش کش کی لیکن میں اصولوں کی پاسداری کی دُھن میں ہر پیش کش پر انکار کرتا گیا۔
ویسے اب سوچتا ہوں کہ جب رانا محمد حسین سے لے کر مجید صاحب لیب انچارج تک ہر کسی نے اپنے مفادات کو مقدم رکھا تو مجھے بھی اپنا نہیں تو اپنے خاندان کے آرام و آسائش کا کچھ خیال رکھ لینا چاہئیے تھا۔اس کے باوجود مجھے معلوم ہے کہ آئندہ بھی کبھی زندگی کے کسی شعبے میں ایسی صورتحال سامنے آئی تو میں پھر اُن لوگوں کے مشکل وقت میں اُن کا ساتھ نبھا رہا ہوں گا جو اپنے اچھے وقت میں مجھے خوار کرتے رہے ہوں گے۔
رانا محمد حسین نے آخر گھٹنے ٹیک دئیے۔ صدر‘جنرل سیکریٹری اور مارپیٹ کرنے والے نمایاں مزدوروں سمیت ۱۵ ۔افراد نے ’’از خود ‘‘استعفےٰ دے دئیے۔اس کے بدلے میں انہیں تھوڑی تھوڑی سی اضافی رقم دے دی گئی اور سارے مقدمات واپس لے لئے گئے۔جس دن مذکورہ مزدوروں نے استعفےٰ دئیے‘میرے چیف نذیر صاحب نے اپنے گھر سے لیبارٹری میں فون کرکے خصوصی طور پر میری ’’خیریت‘‘دریافت کی۔اس کے بعد ان کی طرف سے میرے خلاف انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔صرف ذہنی اذیت دینے والا۔۔۔۔۔تذلیل کرنے والا سلسلہ۔۔۔۔لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ملز انتظامیہ کے افسران ایک پکنک پارٹی پر گئے۔وہیں نذیر صاحب چیف کیمسٹ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔جنرل منیجر سعید صاحب ایک سرکاری مقدمے کی زد میں آگئے۔یہ چینی کی اسمگلنگ کا کوئی بڑا سکینڈل تھا جس میں حئی سنز شوگر ملز کے ڈائریکٹر آصف صاحب کو بھی ملوث کردیا گیا تھا۔حئی سنز گروپ چونکہ اُس زمانے میں بھٹو مرحوم کے ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا اس لیے ممکن ہے جنرل ضیاء الحق نے سیاسی انتقام کی خاطر حئی سنز گروپ کو نشانہ بنایا ہو۔وجہ کچھ بھی رہی ہو‘جنرل منیجر سعید صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ہی میرے خلاف انتظامیہ کا جارحانہ محاذ ختم ہو گیا۔
نئی انتظامیہ کے چیف کیمسٹ شیر باز خاں نیازی بڑے ذہین آدمی نکلے۔پہلی دفعہ لیبارٹری میں آئے تو میں اپنے بگڑے مزاج کے مطابق کرسی پر بیٹھا رہا۔انہوں نے اسے نوٹ کیا ‘پھر اپنے طور پر میرے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔میرا ریکارڈ دیکھا‘اپنے طور پر کسی نتیجے پرپہنچے۔۔اور پھر یوں ہوا کہ وہ لیبارٹری میں آئے۔باقی سارا عملہ انہیں’’سر!سلام‘‘کہہ رہا تھا اور میں حسبِ معمول اپنی کرسی پر بیٹھا تھا۔ نیازی صاحب سیدھے میرے پاس آئے ۔میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے’’حیدر صاحب!السلام علیکم‘‘۔یہ بڑا ہی اچانک وار تھا۔بالکل غیر متوقع۔میں بوکھلا کر کھڑا ہو گیا۔ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ سے ہاتھ ملایا ‘وعلیکم السلام کہا۔انہوں نے میری خیریت پوچھی اور چلے گئے۔اگلے دن جیسے ہی وہ لیبارٹری میں داخل ہوئے‘میں اُٹھ کر ڈارک روم کی طرف کھسکنے لگاتاکہ سامنا ہی نہ ہو۔لیکن نیازی صاحب نے مجھے آدھے راستے ہی سے آواز دے دی۔’’حیدر صاحب!السلام علیکم ‘‘۔اس بار مجھے لگا ان کا ہاتھ مجھ سے ہاتھ ملانے کے لئے نہیں بڑھا‘میرے دل کو اپنی گرفت میں لینے کے لئے آگے بڑھا ہے۔میں شرمندہ ہوکر پلٹا‘سلام کا جواب دیا‘ہاتھ ملایا اور پھر میں خود یہ کوشش کرنے لگا کہ نیازی صاحب سے پہلے انہیں سلام کہوں لیکن انہوں نے بہت کم اس کا موقعہ دیا۔میرا خیال ہے انہوں نے میرے اندر کے باغی کو بڑی حد تک سمجھ لیا تھا اور اسے مزید بھڑکانے کی بجائے محبت آمیزانداز سے میرے باغیانہ جذبے کی تہذیب کرنے لگے تھے۔
پاکٹ یونین کے صدر الطاف کو ذاتی طور پر میں نے ہمیشہ بہت اچھا انسان پایاتھا۔رانا محمد حسین کے عروج کے زمانہ میں ان کے بے جا جبر و تشدد کے نتیجہ میںیہ اُن کے مخالف ہوئے تھے۔پھر جب ملز انتظامیہ سے انہیں مدد ملی تو انہوں نے اس سے فائدہ اُٹھایاتاکہ رانا محمد حسین اور ان کے متشدد گروپ کو ٹھکانے لگایا جاسکے۔مجھے انہوں نے ایک دو بار سمجھانے کی کوشش کی۔ میں نے انہیں صاف کہہ دیا کہ رانا صاحب کے سابقہ کردار کا میں بھی مخالف ہوں لیکن اِس وقت یہ لوگ مظلوم ہیں اس لیے میں ان کا ساتھ دوں گا۔چنانچہ میں نے آخر تک ان کا ساتھ نبھایا۔ الطاف صاحب کا خیال یہ تھا کہ رانا گروپ مزاجاََ متشدد ہو چکا ہے اس لیے دوبارہ طاقت میں آکر یہ لوگ پھر پہلے والی زیادتیاں کریں گے ۔مزید یہ کہ بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے کے باعث مزدور کے اجتماعی مفاد کے تحفظ کے لئے اب یہی راستہ غنیمت ہے۔جنرل ضیا کے فوجی دور کے حوالے سے الطاف صاحب کی باتیں کچھ اتنی غلط نہ تھیں ۔تاہم میں نے رانا گروپ کی یونین ختم ہونے تک ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔جب یونین ختم ہوگئی تو الطاف گروپ پوری طرح چھا گیا۔انہیں مزدوروں کی تائید ملی تو انہوں نے مزدوروں کے حقوق اور مفادات کے لئے جدو جہد شروع کردی۔ملز انتظامیہ کا خیال تھا کہ انہیں ہم نے مقبول لیڈر بنایا ہے اس لیے انہیں صرف ہمارے ہی اشاروں پر چلنا چاہیے۔الطاف گروپ کا موقف یہ تھا کہ ایک مجبوری اور مصلحت کے تحت ہم نے ملز انتظامیہ کی مدد سے فائدہ اُٹھایا ہے وگرنہ ہم بنیادی طور پر مزدور ہیں اور مزدور مفادات کا تحفظ ہی ہماری اوّلین ترجیح ہے۔چنانچہ جلد ہی ملز انتطامیہ اور الطاف گروپ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔
نئے چیف کیمسٹ نیازی صاحب میرے معاملے میں خاصے مہربان تھے۔ان کی جدوجہد کے نتیجہ میں مجھے شفٹ کیمسٹ کے عہدہ کی ترقی مل گئی لیکن یہ ترقی دوسرے شفٹ کیمسٹوں کے لئے دُکھ کا سبب بن گئی۔ان کے لئے میٹرک پاس مجید صاحب تو بطور شفٹ کیمسٹ قابلِ قبول تھے لیکن ایم اے اردو حیدر قریشی قابلِ قبول نہیں تھا۔۔۔۔ایم ایس سی اور کیمیکل انجینئر شفٹ کیمسٹوں میں خودمیں بھی اپنے اپ کو ’’مِس فٹ‘‘محسوس کرتا تھا لیکن پھر میٹرک پاس مجید صاحب؟۔۔۔۔۔۔اس تناؤ میں مجھے اصل ڈیوٹی دینے کی بجائے گنّا تولنے کی چیکنگ کی سپیشل ڈیوٹی دے دی گئی۔مجھے یہ سب کچھ خاصا توہین آمیز لگ رہا تھا۔اسی دوران ملز انتظامیہ کے بعض افسران کے بھانجے‘بھتیجے‘بیٹے قسم کے رشتوں والے چند نوجوان میرے ساتھ آگئے۔یہ سب مڈل اور میٹرک پاس لڑکے تھے اور ان کی تنخواہیں مجھ سے ڈیڑھ گُنا‘دو گُنا تک زیادہ تھیں۔میں جو اُنیس سال سے یہاں مشقت کر رہا تھا‘اس صورتحال سے بے حد دل برداشتہ ہوا۔کبھی کبھی خیال آتا کہ کہیں نیازی صاحب نے خلوص اور محبت کا جال بچھا کر مجھے پھنسانے کی چال تو نہیں چلی تھی؟آفیسر کیڈر میں لانے کے باوجود نہ تو مجھے میری اصل ڈیوٹی دی گئی اور نہ ہی تنخواہ میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ کیا گیا۔بس اتنا ہوا کہ اب میں براہِ راست لیبر یونین سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ لیکن نیازی صاحب کے لئے میں خود اتنا مخلص ہو چکا تھا کہ ان کی کسی زیادتی کوبھی خاموشی سے برداشت کر سکتاتھا۔ سو ایسا ہی کیا۔آج بھی میں پوری ایمانداری سے کہہ سکتا ہوں کہ نیازی صاحب کے تئیں میری خاموشی‘کسی بے بسی کی زائیدہ نہیں تھی۔میں بظاہر بے بس ہونے کے باوجود ابھی بالکل ہی بے بس نہیں ہوا تھا۔میں حقیقتاََ ان کے لئے مخلص تھا۔
اسی دوران الطاف گروپ نے کسی مسئلے پر نیازی صاحب کے خلاف ہنگامہ کیا اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ایک دو اور مسئلوں پر بھی نیازی صاحب کے لئے پریشانی پیدا ہوئی‘یہاں تک کہ انہیں دل کا عارضہ ہو گیا۔ان کے خلاف ان سارے ہنگاموں میں وہ سارے افسران بھی کہیں نہ کہیں موجود تھے جنہوں نے میرے شفٹ کیمسٹ بنائے جانے پر احتجاج کیا تھا۔خود مجید صاحب بھی پس پردہ پیش پیش تھے۔۔۔۔۔۔۔اب میں ایک اعتراف کر لینا چاہتا ہوں کہ اگر میں ان سارے ہنگاموں میں نیازی صاحب کو بچا لے جانا چاہتا توالطاف اور اظہر ادیب مجھ سے دور نہیں تھے۔ ان سے بات کر کے باعزت سمجھوتہ کراسکتا تھا۔ لیکن میں خاموش تماشائی ہی بنا رہا۔نیازی صاحب نے ایک بار بھی مجھ سے بات کی ہوتی توشاید سارا منظر تبدیل ہوجاتا۔ اب سوچتا ہوں ممکن ہے وہ خود میری ترقی کے بعد میرے ساتھ ہونے والے سلوک پر دل ہی دل میں شرمند گی محسوس کرتے ہوں اور اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہوں اور اسی شرمندگی کی وجہ سے مجھ سے بات نہ کی ہو۔بہر حال نیازی صاحب نے پھر یہ ملازمت چھوڑ دی اور ان کے بعد میں نے بھی جلد ہی شوگر مل کی نوکری چھوڑ دی۔
محبتوں میں  تم سے جو  نباہ بھی نہ کر سکا
تمہارے بعد پھر کسی کی چاہ بھی نہ کر سکا
***

گراموفون سے سی ڈی تک

گراموفون سے سی ڈی تک

رحیم یار خاں میں قیام کے زمانے میں ، ہمارے بچپن میں جب ہمارے گھرمیں بجلی آئی تو بجلی سے چلنے والا ریڈیو بھی آ گیا ۔تا ہم گھر میں ریڈیو آنے سے پہلے ہم بابا جی کے ہاں خانپور میں گراموفون مشین سے متعارف ہو چکے تھے ۔ آپی اور میں ، ہم دونوں گانا سننے کی بجائے گانا گانے والوں کو ڈھونڈا کرتے تھے ۔ کبھی مشین کے بکس کو کھٹکھٹاتے تھے ، کبھی اس کے ساتھ منسلک بھونپو کے اندر جھانک کر گانے والوں کو تلاش کرتے تھے ۔ ریڈیو کے معاملے میں بھی ہم اسی طرح حیران ہوئے اور پھرا س کے عادی ہو گئے ۔ ایک بار بابا جی اپنی ایک گراموفون مشین رحیم یار خاں لے آئے ، وہاں انہوں نے پتہ نہیں کس تکنیک سے مشین کا کنکشن ریڈیو سے جوڑ دیا ۔ ایک کمرے میں مشین رکھ دی گئی دوسرے میں ریڈیو ، مشین پر کوئی گراموفون ریکارڈ چلایا جاتا تو ریڈیو سے وہی گانا سنائی دیتا ۔ بچپن کی حیرت انگیز باتوں میں یہ ہمارے لئے ایک اور حیرت انگیز بات تھی ۔ ۔۔ ایک بار بابا جی گراموفون مشین کے پاس بیٹھے تھے ، انہوں نے اپنے سامنے بہت سارے گراموفون ریکارڈز پھیلا رکھے تھے ۔ شاید اپنی پسند کے بعض ریکارڈز الگ کر رہے تھے ۔ اسی دوران پتہ نہیں کسی کام سے وہ تھوڑ ی دیر کے لئے اٹھے تو میں اُنہیں کے انداز میں انہیں کی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا اور کچھ سمجھے بوجھے بغیر ان ریکارڈز کو باباجی کی طرح غور سے دیکھنے لگا ۔ پھر گھٹنوں کے بل ایک طرف بڑھا تو چار پانچ ریکارڈز میرے گھٹنوں کے نیچے آ کر ٹوٹ گئے ۔ اسی دوران بابا جی آ گئے ۔ اس نقصان سے تھوڑا سے پریشان تو دِکھے لیکن مجھے ڈانٹا نہیں ۔۔۔ ایک عرصہ بعد بابا جی میری اسی غلطی کو یوں مزے سے بتایا کرتے جیسے میں نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا تھا ۔ زندگی بھر تو مجھ سے ڈھنگ کا کوئی کام نہیں ہو سکا تا ہم اتنا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے بچپن میں ہی چار پانچ ریکارڈز توڑ دیئے تھے ۔ یہ غالباً-58 1957 کا زمانہ تھا ۔
اب یہاں جرمنی میں ایک بار میری بڑی بیٹی ہمارے ہاں آئی ہوئی تھی ، میرا نواسہ رومی کھیل رہا تھا ، سامنے ٹی وی بھی چل رہا تھا ۔ اچانک ٹی وی پر ایک نیم برہنہ سا اشتہار آ گیا ۔ ڈھائی سال کے رومی کی نظر ادھر پڑی تو کھیلنا چھوڑ کر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ میں نے فوراً ریموٹ کے ٹیکسٹ کا بٹن دبا دیا ۔ رومی کو لگا کہ میں نے ٹی وی کے ساتھ کچھ کر دیا ہے ۔ اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا تو میں بالکل انجان بن گیا ۔ تب وہ دوڑ کر ٹی وی کے قریب گیا اور جھک کر یوں سکرین کے نیچے سے دیکھنے لگا جیسے ٹیکسٹ کی عبارت کے نیچے سے وہ نیم برہنہ خواتین تھوڑی سی دکھائی دے جائیں گی ۔ میں اس کی اس حرکت پر بے اختیار مسکرا دیا ۔ تب ہی مجھے احساس ہوا کہ بچپن کی معصومیت کا انداز بے شک وقت بدلنے کے ساتھ بدل جاتا ہے لیکن بچپن کی معصومیت بہر حال معصومیت ہی رہتی ہے ۔
خانپور منتقل ہونے تک ہمارے گھر کے اقتصادی حالات کافی بگڑ چکے تھے ۔ بابا جی کا گراموفون مشینوں کا شوق بھی ٹھنڈا پڑ چکا تھا ۔ ایک دو مشینیں کباڑ کی طرح گھر کے کسی کونے میں پڑی ہوئی تھیں ۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ایک مشین ٹھیک ہو جائے اور میں اس پر ریکارڈ لگا کر سن سکوں ۔ بابا جی سے بات کی تو پتہ چلا ایک مشین ٹھیک ہے ۔ اسے جھاڑ پونچھ کر چلانا چاہا تو پتہ چلا بعض پرزوں کو تیل کی ضرورت ہے ۔ تیل گھر میں ہی موجود تھا ، سو یہ مسئلہ بابا جی کی مدد سے حل ہو گیا لیکن پھر ایک بڑا مسئلہ سامنے آ گیا ۔ ریکارڈ چلانے کے لئے مخصوص سوئیوں کی ضرورت تھی ۔ سوئیاں بازار سے خریدی جا سکتی تھیں لیکن پیسے کہاں سے آئیں ؟ یہ گہرا مسئلہ تھا ۔۔۔ مجھے لڑکپن سے ہی گھر کے حالات کا احساس ہو گیا تھا اس لئے امی جی ، ابا جی یا بابا جی سے ایسی فرمائش کرنا ہی زیادتی لگتی تھی ۔ لیکن ادھر گراموفون مشین پر ریکارڈز سننے کی شدید خواہش تھی ۔ مشین موجود تھی ، ریکارڈز بھی موجود تھے لیکن سارا معاملہ مشین کی سوئی پر اٹک گیا تھا ۔ یہ خواہش ، حسرت میں تبدیل ہونے ہی والی تھی کہ قدرت نے دستگیری فرما دی ۔ لیکن سوئیوں کے حصول کی داستاں اب ذرا بعد میں ۔۔۔ پہلے خانپور کا ہی ایک اور واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔
ہمارے گھر کے مغربی اور جنوبی اطراف میں سیال فیملی کے گھر تھے ۔ یہ فیملی کئی بھائیوں اور کزنز اور پھر آگے ان کی اولادوں کے گھروں پر مشتمل تھی ۔ ان سب کے گھر دور تک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے ۔ ہمارے گھر کے جنوبی (عقبی ) جانب منیر سیال کا گھر تھا ۔ عمر میں یہ مجھ سے سات آٹھ سال بڑے تھے ۔ ان کے والد فوت ہو گئے تھے ۔ بیوہ ماں تھی اور منیر سیال تھے ۔ صبح سویرے منیر سیال دال چھولے کی چھابڑی لگاتے تھے ۔ جو کچھ کماتے لا کر ماں کے ہاتھ میں رکھ دیتے ۔ گھر کا خرچہ چل رہا تھا ۔ دراصل منیر کے والد یہی کام کیا کرتے تھے ۔ ان کی وفات کے بعد اپنی ماں کو سہارا دینے کے لئے منیر کو اپنے والد کی چھابڑی سنبھالنی پڑی ۔ جب ہم لوگ خانپور میں رہنے لگے تو مجھے اور میرے چھوٹے بھائی اکبر کو ایک ساتھ سکول جاتے آتے دیکھ کر منیر سیال کے دل میں بھی پڑھنے کی دبی ہوئی خواہش نے سر اٹھایا ۔ غالباً چوتھی جماعت کے بعد انہوں نے اسکول چھوڑ دیا تھا اور اس بات کو چار پانچ سال گز ر چکے تھے ۔ منیر سیال نے اپنی ماں سے کہا کہ میں پھر سے پڑھنا چاہتا ہوں ۔ماں نے اسے برا بھلا کہا کہ تم پڑھو گے تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا ۔ سیال برادری کے بعض دیگر بزرگ خواتین و حضرات کو پتہ چلا تو وہ سارے لوگ جو اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے تھے ، انہوں نے بھی منیر کی پڑھائی کی مخالفت کی اور یہاں تک کہہ دیا اس کا باپ پڑھا تھا جو یہ بدبخت پڑھے گا ۔ مگر وہ’’ بدبخت‘‘تو اپنی ضد پر اڑ گیا تھا ۔ روزانہ ماں بیٹے میں ہونے والے جھگڑے کی آوازیں ہمارے گھر تک سنائی دیتیں ۔ آخر ایک دن امی جی نے منیر کی ماں سے پوچھ لیا کہ آپ کے گھرمیں کیا جھگڑا ہوتا رہتا ہے ؟ ۔ منیر کی ماں نے منیر کو برا بھلا کہتے ہوئے اس کے دوبارہ پڑھائی شروع کرنے کے ’’مذموم ارادے‘‘ کی بابت بتایا تو امی جی نے انہیں سمجھایا کہ اگر وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے ۔ امی جی کے سمجھانے کا منیر کی ماں پر مثبت اثر ہوا اور انہوں نے آخر کار منیر کو پڑھنے کی اجازت دے دی ۔
منیر نے ابتدا میں چھابڑی بھی لگائے رکھی اور گھر پر پڑھائی کرنے لگا ۔ اس دوران انہوں نے مجھ سے ٹیوشن کی مدد مانگی اور کہا وہ مجھے مناسب ٹیوشن فیس بھی دیں گے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں صرف ایک بار ٹیوشن فیس لونگا ، کیونکہ مجھے گراموفون مشین والی سوئیاں خریدنی ہیں اور یہ فیس صرف چار آنے ہو گی ۔ منیرنے اسی وقت جیب سے چونی نکال کر فیس ادا کی اور میں انہیں پڑھانے کی بجائے سیدھا بازار کی طرف بھاگا ۔وہاں سے مطلوبہ سوئیاں خریدیں ۔ گھر آ کر مشین پر گھسے ہوئے ریکارڈز کو لگا لگا کر سنتا رہا ۔ گھسے ہوئے ریکارڈز کو اتنی بار سن لیا کہ مزید سننے کی تمنا نہ رہی ۔ پھر اسی دن ہی میں نے گراموفون مشین کو اٹھا کر اس کے اصل مقام پر رکھ دیا ۔
منیر سیال نے شروع شروع میں مجھ سے تھوڑی سی اردو پڑھی ۔ پھر ہمارے اسکول کے ایک دو ٹیچر ان کی مدد کرنے لگے ۔ سال ڈیڑھ سال میں انہوں نے آٹھویں جماعت کا بورڈ کا امتحان دیا اور کامیاب ہو گئے ۔ پھر تین سال کے بعد پرائیویٹ طور پر ہی دسویں کے امتحان میں شرکت کی اور اس میں بھی کامیاب رہے ۔ اس کے بعد انہوں نے سکول ٹیچر کا کورس ptc کر لیا ۔ پھر ایف اے بھی کر لیا ۔ ایک گاؤں میں ٹیچر لگ گئے ، شادی خانہ آبادی بھی ہو گئی ۔ منیر سیال کو میری اور اکبر کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا تھا ۔ مجھے دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد ملازمت کے ساتھ ایف اے ، بی اے اور ایم اے کرنے کی توفیق ملی تو اس شوق میں مجھے کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری طور پر منیر کے کردار سے تحریک ضرور ملی تھی ۔ شاید ایسے ہی چراغ سے چراغ جلتے ہیں
جب ہمارے حالات قدرے بہتر ہونے لگے تو بابا جی ایک سیکنڈ ہینڈ بلکہ تھرڈ یا فورتھ ہینڈ ریڈیو ٹرانزسٹر لے آئے ۔ ہر سیٹ کی طرح اس سیٹ پر بھی دائیں بائیں KC--MC-MW-SW کے حروف لکھے ہوئے تھے ۔ میڈیم ویو یا شارٹ ویو پروگراموں کی فریکوئنسی تلاش کرنے کے لئے ان سے راہنمائی ملتی ہے ۔ اکبر تب چھٹی جماعت میں تھا ۔ نئی نئی اے بی سی سیکھی تھی ۔ چنانچہ وہ انہیں بڑی روانی کے ساتھ مؤ ، سؤ ، کک، مک پڑھتا تھا ۔ ریڈیو کے پیچھے کا کور جب چاہتے کھول لیتے بلکہ اکثر کھلا ہی رکھتے ۔ پرزوں کے اصل نام تو خدا جانے کیا ہوں گے ۔ دیسی حساب سے بیشتر پرزوں کے نام ہمیں یاد ہو گئے تھے ۔ کسی تار کا ٹانکا ٹوٹ جاتا تو بابا جی خود ہی ٹانکا لگا لیتے تھے ، ایک بار ریڈیو کے سپیکر سے منسلک تار کا ٹانکا ٹوٹ گیا ۔ بابا جی گھر پر نہیں تھے ۔ مجھے پریشانی یہ تھی کہ میں نے آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے پروگرام’’ یک رنگ‘‘ سننا تھا ۔ یہ پروگرام مجھے ویسے بھی اچھا لگتا تھا لیکن اس دن یک رنگ کا الوداعی پروگرام تھا ۔ یک رنگ ۔۔۔۔ یک رنگ کے نام تھا ۔ تب میں نے تار کا ننگا حصہ اسپیکر کی متعلقہ جگہ پر انگلی کے ساتھ مسلسل چپکائے رکھا اور یوں وہ سارا پروگرام سنا ۔ ٹانکوں کے مسئلے سے ہٹ کر بھی ریڈیو سیٹ کا طرز عمل ضدی بچوں جیسا تھا ۔ چلتے چلتے کبھی آواز کا ازخود بڑھ جانا اور کبھی بالکل خاموش ہو جانا ۔ جب ریڈیو کا کوئی بٹن کارگر نہ ہوتا تب ایک دو تھپڑ لگانے سے ریڈیو عموماً ٹھیک ہو جاتا تھا ۔ ایک بار جب مختلف پرزوں کو چھیڑنے سے لے کر تھپڑ لگانے تک کوئی نسخہ کار گر نہ ہوا تو باباجی نے یہ سمجھ کر کہ اب یہ بالکل ہی ختم ہو گیا ہے ، پاؤں کا جوتا اٹھا کر غصے سے ریڈیو پر دے مارا ۔ یقین کیجئے ریڈیو اسی وقت ٹھیک ہو گیا ۔ ہم سارے گھر والوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا ۔ ابا جی کو ریڈیو سے صرف خبروں کی حد تک سروکار تھا ۔۔۔۔ بابا جی کے اور میرے درمیان پسندیدہ اسٹیشن لگانے کی کشمکش چلتی رہتی تھی ۔ بابا جی کو پاکستانی گانے اور خاص طور پر نورجہاں کے گانے بہت پسند تھے ۔ قوالیاں بھی بڑے شوق سے سنتے تھے ۔ مجھے اس زمانے میں صرف انڈین گانے اچھے لگتے تھے ۔ بابا جی نے ریڈیو لاہور یا ملتان لگایاہوا ہے ۔ میں اٹھا اور آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس لگا دی ۔ عصر کے بعد کبھی کبھا ر آکاش وانی بمبئی وِوِدھ بھارتی وگیا پن کاری کرم بھی کیچ ہو جاتا ۔ میرے لئے اس پروگرام کی کمرشلز بھی دلچسپ ہوتی تھیں ۔
دراصل دلی، لکھنؤ ، کلکتہ اور بمبئی جیسے شہروں کے بارے میں تاریخ اور اردو کی درسی کتابوں میں جتنا پڑھا تھا اس کی وجہ سے یہ شہر میرے لئے خوابوں کے شہر ہو گئے تھے ۔ سو بمبئے ریڈیو سن کر میں جیسے اپنے خواب کی آوازیں سن رہا ہوتا تھا ۔ جب مجھے دلی جانے کا موقعہ ملا تب خواب اور حقیقت کا فرق معلوم ہوا ۔ میرے خوابوں والے دلی کی ہلکی سی پرچھائیں مجھے غالب کے مزار اور حضرت نظام الدین اولیاء کے دربار میں نظر آئی ۔ جامع مسجد دہلی اور لال قلعہ کے علاقوں میں بھی ایسی پرچھائیوں کا ہلکا سا احساس ہوا لیکن دلی تو کیا سے کیا ہو چکی ۔ دہلی سے Delhi ہو چکی ۔ اب اگر کبھی لکھنؤ ، کلکتہ اور بمبئے جانے کا موقعہ ملا تو ظاہر ہے مجھے یہ تجربہ تو ہو ہی گیا ہے کہ اپنے خوابوں والے شہر تو اب کہیں بھی نہیں ملیں گے ، لیکن خوابوں کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں تو کہیں نہ کہیں مل ہی جائیں گی ۔
محمد رفیع اور لتا منگیشکر تو مشرقی موسیقی کے امر گلوگار ہیں ۔ مکیش ، مہندر کپور ، طلعت محمود ، آشا بھونسلے ، گیتا دت ، ہیمنت کمار ، کشور کمار ، سمن کلیان پور ، مبارک بیگم اور منا ڈے کے بہت سارے گانے مجھے پسند ہیں ۔ پاکستانی گلوکاروں میں سلیم رضا ، زبیدہ خانم ، مہدی حسن ، مسعود رانا ، احمد رشدی ، مالا ، نسیم بیگم ، مسرت نذیر ، اسد امانت وغیرہ کے گیت مجھے اچھے لگتے ہیں ۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے 1970 ء کے عرصہ تک بے حد عمدہ گیت گائے ، لیکن مجھے لگتا ہے اس کے بعد ان کی آواز جیسے پھٹ گئی ہو ۔ سمن اور مبارک بیگم نے بعض بے حد خوبصورت گانے گائے ہیں لیکن خدا جانے وہ فلم انڈسٹری میں کیوں نہیں ٹک پائیں ۔ آشا بھونسلے مجھے کئی جہات سے اچھی لگتی ہیں لیکن حال ہی میں انہوں نے جو اپنے خوبصورت گیتوں کو پاپ میوزک سے آمیز کر کے البم نکالے ہیں ان سے مجھے ذاتی طور پر بے حد شاک لگا ہے ۔ یہ تو فلمی گلوکاروں کے بارے میں میری پسند کا ایک خاکہ سا تھا ۔ پرائیویٹ گانے والوں میں مجھے سب سے زیادہ لوک گلوکار پسند ہیں ۔ صوفیائے کرام کا کلام گانے والے گلوکار، پھر غزلیں گانے والے اور قوالیاں گانے والے بھی ۔ حامد بیلا‘ نصرت فتح علی خاں ، پٹھانے خاں ، شوکت علی ، عالم لوہار ، ریشماں ، غلام علی ، جگجیت ، چترا ، پنکج ادھاس اور بے شمار دوسرے گلوکار میری پسند ہیں ۔ کبھی کبھار سہگل کے اور اُس دور کے گلوکاروں کے گانے سننے میں بھی مزہ آتا ہے ۔ اگر میں اپنے پسندیدہ گانوں کی فہرست تیار کر نے بیٹھوں تو شاید ایک چھوٹی سی کتا ب تیار ہو جائے ۔ یہاں میں دو گیتوں کا خصوصی ذکر کرنا چاہتاہوں ۔ پہلا گانا فلم خاموشی کا ہے اور اسے لتا جی نے گایا ہے
ہم نے دیکھی ہے ان کی آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ہاتھ  سے  چھو  کے  اسے  رشتوں  کا الزام نہ دو
یہ گانا میں نے پہلی بار جب سنا تو رات کا وقت تھا " تعمیل ارشاد " پروگرام لگا ہو ا تھا ۔ گرمیوں کا موسم ، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ۔یہ گیت شروع ہوا تو مجھ پر عجیب سا جادو طاری ہو گیا ۔ یہ گانا میرے پسندیدہ ترین گانوں میں سے ایک ہے ۔ دوسرا گانا بھی لتا جی کا ہے فلم ’’انوپما‘‘ سے :
’’کچھ دل نے کہا ، کچھ بھی نہیں ۔۔۔ ؍کچھ دل نے سنا ، کچھ بھی نہیں ۔۔۔
؍ایسی بھی باتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ‘‘
میں ریڈیو کی سوئی گھما رہا تھا کہ یہ گیت سنائی دیا ۔ آخری انترا چل رہا تھا ۔ ادھر ریڈیو بھی مستی سی کر رہا تھا ۔ لیکن تیر تو نشانے پر لگ چکا تھا ۔ میں نے مکھڑا ذہن نشین کر لیا تب فلم کا نام معلوم نہیں تھا اور پھر مجھے اس گیت کی تلاش ہی رہی ۔ جب حالات بہتر ہوئے ، اپنا کیسٹ پلےئر آ گیا تب میں نے اس گانے کی تلاش تیز کر دی ۔ لیکن جس سے بھی گانے کی بابت پوچھتے وہ دوکاندار ہنس دیتا کہ جی یہ بھی کوئی گانا ہو گا ۔
کچھ دل نے کہا ، کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ 1993 میں جب میں دلی میں تھا تب زی ٹی وی کی نشریات ختم ہونے کے بعد رات کو گانوں کی ایک ہی آڈیوکیسٹ مسلسل اس چینل سے نشر ہوتی رہتی تھی ۔ ان گانوں میں یہ گانا بھی شامل تھا ۔ مجھے یہ گانا کیا ملا ، کوئی کھویا ہوا خزانہ مل گیا تاہم بات صرف ان گیتوں پر ختم نہیں ہوتی لیکن یہاں یہ باتیں کچھ زیادہ ٹھیک نہیں رہیں گی ۔
گراموفون اور ریڈیو کے زمانے میں گویا ایک نقاب سا حائل تھا ۔ ٹی وی نے آ کر پہلے تو یہ نقاب اتارا‘پھر اور بھی بہت کچھ اتار دیا ۔ سیٹلائٹ نے کثرت کا ایسا تماشہ دکھایا کہ چینل کا انتخاب کرنا مشکل ہو گیا ۔ گراموفون کے زمانے میں فلم بھی تھی لیکن میرے لئے اس کا ہونا ‘’’نہ ہونے‘‘ کے برابر تھا ۔ میں نے تیس سال کی عمر تک فلم نہیں دیکھی ۔ سینما ہاؤس میں جا کر اب بھی نہیں دیکھی ، وی سی آر ، ایشیا نیٹ اور زی ٹی وی کے ذریعے اتنی فلمیں دیکھ لی ہیں کہ زندگی کے ابتدائی تیس برسوں کی کسر بھی نکال دی ہے اور آنے والے کئی برسوں کا کوٹہ بھی پورا کر لیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے اتنی فلمیں دیکھ لی ہیں کہ اب فلم دیکھنے کی خواہش ہی نہیں رہی ۔کبھی کوئی بہت اچھی فلم سننے میں آئے تو اسے دیکھ لیتا ہوں ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں وہ گیت جوریڈیو پر اچانک سننے کو ملتے تھے اور عجیب جادو سا کر دیتے تھے ۔ ٹیپ ریکارڈر آنے کے بعد پوری طرح ہماری دسترس میں آ گئے ہیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ا ب گانا سننے کے لئے ریڈیو کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی ۔ جب جی چاہے کیسٹ لگائیں اور پسندیدہ گانا سن لیں لیکن نقصان یہ ہوا کہ کتنے ہی خوبصورت گانے بار بار سن کر وہ سرور گم ہو گیا ہے جو ریڈیو پر وہی گیت اچانک سننے سے ملتا تھا ۔
شروع میں گراموفون کے ریکارڈ میں ایک طرف ایک گانا ہوتا تھا دوسری طرف ایک اور گانا ہوتا تھا۔ ہر گانے کے بعد ریکارڈ کو تبدیل کرنا پڑتا تھا ، مشین کی چابی بھرنا ہوتی تھی ۔ اور اب سی ڈی کا زمانہ آ گیا ہے ۔ سی ڈی پلےئر پر بیک وقت تین سی ڈی لگی ہیں ۔ لگ بھگ پچاس گانے آپکے ہاتھ میں ہیں ۔ مرضی کا گانا سنتے رہیں ۔ اٹھ کر سی ڈی پلےئر کے کسی بٹن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے ، ریموٹ سے کنٹرول کیجئے اور اپنی پسند کے گانے سنتے رہئے ۔ ٹیپ ریکارڈ ر کی طرح یہ مجبوری بھی نہیں ہے کہ چھ یا آٹھ گانے ہیں اور ریکارڈڈ ترتیب کے مطابق باری باری آتے جائیں گے ۔بس مطلوبہ سی ڈی کا نمبر دبائیں ‘ پسندیدہ گانے کا نمبر دبائیں اور اطمینان سے اپنی پسند کا گانا سن لیں ۔ میں کفران نعمت کو بدترین گناہوں میں شمار کرتا ہوں ۔ زندگی کے تلخ ترین حالات سے گزرنے کے بعد خدا نے اس قسم کی آسائشیں اور سہولتیں عطا کی ہیں تو ان کے لئے تہہ دل سے خدا کی شکر گذار ی کرتا رہتا ہوں ۔گراموفون مشین اور سی ڈی پلےئر میں اتنا فرق ہے جتنا بیسویں صدی کی پہلی ربع صدی اور آخری ربع صدی میں فرق ہے ۔ زمانہ وہی ہے ، صدی وہی ہے ، بس گراموفون مشین اب سی ڈی پلےئر کا روپ اختیار کر گئی ہے ۔
اور ہاں ۔۔۔۔ میری ذاتی زندگی بھی تو گراموفون سے سی ڈی جیسی ہو گئی ہے ۔ فالحمدللہ علی ذلک ۔
***

اخلاقی قدریں اور ویا گرا

اخلاقی قدریں اور ویا گرا


میرے بچپن کے دور میں رحیم یار خاں اور مقامی آبادی میں خواتین کے لئے شٹل کا ک برقعہ رائج تھا ۔ شہری لوگوں میں تھوڑی تھوڑی تبدیلی آ رہی تھی ۔ سفید کفن نما برقعہ کی جگہ ریشمیں کپڑے کا سیاہ برقعہ پہنا جانے لگا تھا ۔ شٹل کاک برقعہ والے حلقے میں لیڈی ہملٹن کے سیاہ برقعے کو " بے حیائی " سمجھا جاتا تھا۔ میرے جوان ہونے تک ۔۔۔۔۔ یعنی بیس سال کے اندر اندر ہی نہ صر ف شٹل کاک برقعہ تقریباً غائب ہو گیا بلکہ سیاہ برقعہ سے بڑھ کر چادریں اوڑھنے کا رواج شروع ہو گیا۔ اب تو ان شہروں میں صرف دوپٹہ اوڑھے ہوئے بلکہ دوپٹہ گلے میں ڈالے ہوئے بیبیاں بھی عام دکھائی دیتی ہیں ۔ لڑکیوں کو پڑھائی کرانے کامعاملہ بھی شروع میں کچھ ایسا ہی تھا ۔ خانپور میں ہماری ایک ہمسائی ماسی خانزادی لڑکیوں کو پڑھانے کی سخت مخالف تھیں ۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکیاں پڑھنا لکھنا سیکھ جائیں تو اپنے یاروں کو محبت نامے لکھتی ہیں ۔ بعض دوسری ہمسائیوں کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو پانچ جماعت تک تعلیم ضرور حاصل کرنا چاہیئے ۔ ہمارے گھر والوں کے مطابق بچیوں کو دسویں تک تعلیم دلانے میں کوئی حرج نہیں لیکن کالج کی تعلیم ٹھیک نہیں تھی ۔ پھر ہمارے اپنے ہی عزیزوں اور احباب میں تین طرح کے لوگ ملے ۔ ایک کے نزدیک لڑکیوں کو کالج تک پڑھانے میں کوئی حرج نہیں لیکن یونیورسٹی نہیں بھیجیں ، وہاں ماحول بہت زیادہ کھلا ہوتا ہے ۔ دوسروں کے موقف کے مطابق لڑکیوں کو یونیورسٹی تک تعلیم تو دلانا چاہیئے لیکن ملازمت نہیں کرانا چاہیئے ۔ کیونکہ خواتین کوملازمت کرانے دیں تو اس سے بہت سارے اخلاقی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ۔جبکہ تیسروں کے نزدیک خواتین کا ملازمت کرنا قابلِ اعتراض نہیں تھا۔ان کے خیال کے مطابق اخلاقی مسائل اَن پڑھ دیہاتی ماحول میں بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ تعلیم اور ملازمت سے خواتین میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے ۔ برقعہ کی سخت پابندی اور لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت سے شروع ہونے والا " اخلاقی قدروں "کا سفر وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی اپنے آپ کو بدلتا چلا گیا ۔ ایسے ماحول میں ہی میں پلا بڑھا اور اس کے مختلف اثرات مجھ پر مرتسم ہوئے۔
اخلاقیات کی ایک قسم تو عالمی اور دائمی نوعیت کی ہے ، جو تمام مذاہب میں قدر مشترک ہے ، تاہم کبھی کبھی انفرادی نوعیت کی اخلاقیات اپنا جواز خود لے کر آتی ہے ۔ غالباً 1975 ء کی بات ہے ، بزم فرید خانپور کی مقامی نوعیت کی ادبی تقریبات کا سلسلہ جاری تھا ۔ تب ہی ریڈیو پاکستان بہاولپور کی ریکارڈنگ ٹیم خانپور آئی ۔ نصراللہ خاں ناصر پروڈیوسر تھے ۔ ہم نے گورنمنٹ سکول حلقہ نمبر ۲ میں ایک چھوٹے سے مشاعرے کا انتظام کیا ۔ صدارت کے لئے شیخ فیاض الدین کو مدعو کیا گیا جو خانپور کے تجارتی حلقوں کی معروف شخصیت تھے ۔ شاعری کے اچھے قاری اور سامع تھے ۔ مشاعرہ بعد از نماز مغرب ہونا تھا ۔ سو جیسے ہی مشاعرہ شروع ہونے لگا ، شیخ فیاض کے دو ملازم ، ایک نوجوان کو اس طرح پکڑے ہوئے اندر لائے کہ صرف قمیص نوجوان کے تن پر تھی اور اس کی دھوتی ایک ملازم کے ہاتھ میں تھی ۔ ملازموں نے یہ بتایا کہ یہ بدکار قریب کے ویرانے میں ایک گدھی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کر رہا تھا اور وہ اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لائے ہیں ۔ نوجوان کے چہرے پر خوف اور شرمندگی کے گہرے اثرات تھے ۔ شیخ فیاض نے اس نوجوان سے اس کے دو تین نجی کوائف دریافت کئے ۔ کوئی بے حد مفلوک الحال تھا ۔ شیخ فیاض نے اپنے ملازمین کو ڈانٹ کر کہا یہ اتنا غریب ہے کہ نہ تو شادی کر سکتا ہے نہ کوٹھے پر جا سکتا ہے ۔ ایسے حال میں یہ غلطی کر بیٹھا ہے تو تمہیں اس سے کیا نقصان پہنچا ہے ، چلو اس کی دھوتی اسے واپس کر و ۔۔۔۔۔ پھر اس نوجوان سے بڑی ملائمت سے کہا جا بچے جا ۔۔۔۔ یہ واقعہ کوئی بہت بڑا واقعہ نہیں تھا لیکن میں جزا ، سزا کے جن تصورات کو بے حد اہمیت دیتا تھا ، مجھے پہلی دفعہ ان میں معافی کی گنجائش محسوس ہوئی ۔ شیخ فیاض کے رویے کا میں کوئی جواز نہیں دینا چاہتا ۔شاید دے ہی نہیں سکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ تب سے مجھے شیخ فیاض بحیثیت انسان ہمیشہ اچھے لگے ۔
اس سے مختلف ایک اور واقعہ چند سال پہلے جرمنی میں ہوا تھا ۔ ایک معروف مذہبی جماعت کے ایک سابقہ اعلیٰ عہدیدار جو عمر کے لحاظ سے لگ بھگ 60 کے پیٹے میں تھے ، ایک 40 سالہ پاکستانی خاتون کے ساتھ ایک آئس شاپ کے بیس منٹ کی ٹائلٹ سے پکڑے گئے ۔ ہوا یوں کہ دونوں کو محبت بڑھانے کے لئے Langen شہر کی ایک اٹالین آئس کریم شاپ مناسب لگی ۔ عشق کے اگلے مراحل طے کرنے کے لئے طے شدہ پروگرام کے مطابق پہلے خاتون بیس منٹ میں گئیں ، پھر وہ بزرگ بھی بیس منٹ میں اتر گئے ۔ اتفاق کی بات تھی کاؤنٹر پر موجود اطالوی دوکاندار نے خاتون کو نیچے جاتے نہیں دیکھا تھا لیکن بزرگ کو جاتے دیکھ لیا ۔ چنانچہ جب بزرگ کی واپسی میں دیر ہونے لگی تو دوکاندار کو یہ خدشہ ہوا کہ بزرگ آدمی تھے کہیں لیٹرین میں ہی دل کا دورہ نہ پڑ گیا ہو ۔ چنانچہ اس پریشانی کے ساتھ جب وہ نیچے گئے تو مردانہ لیٹرین کا دروازہ کھٹکٹانے پر مضحکہ خیز نظارا سامنے آیا ۔ مذکورہ خاتون اپنا لباس درست کرتی ہوئی اور بزرگوار اپنی بیلٹ باندھتے ہوئے باہر نکلے ۔ یورپ میں باہمی رضامندی سے ہونے والا جنسی عمل کوئی سماجی یا اخلاقی مسئلہ نہیں ہے ۔ لیکن لیٹرین میں Sex Play یورپ والوں کے لئے مضحکہ خیز حرکت ضرور تھی ۔ سو یوں یہ قصہ یہاں عام ہوا ۔
ان دو مختلف نوعیت کے واقعات کے ساتھ مجھے ایک ہولناک واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ خانپور میں سیال فیملی کے لوگ ہمارے ہمسائے تھے ۔ عمومی طور پر یہ سب ہی اچھے لوگ تھے ۔ چھوٹی موٹی ناراضیاں تو قریبی رشتہ داروں میں بھی ہوتی ہیں یہ تو پھر ہمسائے تھے ۔ سارے لوگ اپنی سماجی اخلاقیات کے پابند تھے ۔ 1982 ء میں جب ہم نے اپنا پرانا گھر فروخت کیا اور ماڈل ٹاؤن میں کرائے کے ایک مکان میں منتقل ہونے لگے تو سیال فیملی کے ایک دوست ملنے آئے ۔ مکان کا سودا کرانے میں انہوں نے بھی تھوڑا سا مثبت کردار ادا کیا تھا ۔ بظاہر وہ مجھے خدا حافظ کہنے آئے تھے لیکن میں اس وقت سناٹے میں آ گیا جب انہوں نے بڑی لپٹی ہوئی مگر کچھ اس مفہوم میں بات کی کہ میرے ملنے جلنے والے دوست احباب بہت ہیں اس لئے یہ گھر تو بہت چھوٹا تھا ۔ بات کا طنزیہ انداز ایسا تھا جس کا میرے ذہن میں کہیں شائبہ تک نہ تھا ۔ شاید وہ مجھے ذہنی اذیت میں مبتلا کر کے لطف اٹھانا چاہتے تھے ۔ سو بظاہر تو نہیں لیکن اندر ہی اندر مجھے کہیں اذیت سی ضرور محسوس ہوئی ۔ آخر انہوں ایسا گمان بھی کیوں کیا ؟ ۔۔۔۔۔ اور ایک دن یہ اذیت بالکل ختم ہو گئی ۔ خانپور شہر کی تاریخ کا یہ ہولناک سانحہ یکایک سامنے آیا ۔ سیال فیملی کے اسی کرم فرما کی دو بیٹیوں اور تین لڑکوں کو پولیس نے دن دہاڑے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا ۔ ایک مکان میں دونوں بہنیں مذکورہ لڑکوں کے ساتھ فحش فلمیں دیکھتے ہوئے وہی سین دہرا رہی تھیں ۔ اس سانحہ کے ساتھ مزید المیہ یہ ہوا کہ جائے وقوعہ سے پولیس اسٹیشن تک سارے گرفتار شدگان کو ننگے پاؤں پیدل چلا کر لایا گیا ۔ سب کے تن پر صرف ان کی لمبی قمیصیں تھیں جبکہ سب کی شلواریں اور جوتے ان کے سروں پر دھرے تھے ۔ آگے عبرت کی ایک الگ داستان ہے ۔ یہ واقعہ کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ سا بیان ہو گیا ہے ، اس لئے ہلکی پھلکی شرارت والی یادوں کو کریدتا ہوں ۔
چند سال پہلے بخش لائلپوری لندن سے جرمنی آئے ۔ میرے ہاں مقیم تھے ۔ ان سے جو باتیں ہوئیں ‘ ان میں ایک قصہ بے حد مزے کا تھا ۔ مغرب میں جنسی آزادی ( بے راہروی ) کا مغرب والوں کا اپنا الگ سا تصور ہے ۔ بچوں کے لئے طرح طرح کی گڑیائیں بنانے والوں نے بڑوں کے لئے بھی گڑیائیں بنا دی ہیں ۔ مارکیٹ میں ربڑ کی ایسی گڑیائیں دستیاب ہیں جن میں ہوا بھردیں تو وہ پوری عورت بن جائے ۔ پاکستان سے ایک ادیب لندن گئے تو سیرو سیاحت کے ساتھ ربڑ کی گڑیا بھی خریدی ۔ پھر وطن چلے گئے ۔ چند دن کے بعد بخش لائلپوری کے نام ان کا خط آیا کہ وہ ربڑ کی گڑیا پنکچر ہو گئی ہے ، تم جانتے ہومیں ایک معزز آدمی ہوں اس لئے کسی دوکان پر پنکچر لگوانے کے لئے نہیں جا سکتا ۔ تم مہربانی کرو اور ربڑ کی ایک اور گڑیا لے کر مجھے بھیج دو ۔ چنانچہ بخش لائل پوری نے ان کی فرمائش پوری کر دی۔ تاہم بخش لائل پوری نے گڑیا کے پنکچر ہو جانے کا قصہ ایسے انداز سے سنایا کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑ گئے ۔ میں نے انہیں کہا آپ اس معزز ادیب کی فرمائش پوری کرنے کی بجائے اسے لکھتے کہ پہلے سائیکلوں کی مرمت کرنے والے کسی کاری گر کے شاگرد بنو ، وہاں سے پنکچر لگانے کی تربیت حاصل کرو اور پھر خود ہی اپنے کئے ہوئے پنکچر ٹھیک کرتے رہو ۔
ایک اور مزے کا واقعہ ۔۔۔۔۔ اکبر بابر ایڈووکیٹ خانپورکے ممتاز وکلاء میں شمار ہوتے تھے۔اپنے ہی مُوڈ کے آدمی تھے۔شیخ فیاض الدین کی اور ان کی گہری دوستی تھی۔اُن دنوں شیخ فیاض بلدیہ خانپور کے چےئر مین تھے ۔ اکبر بابر کا موڈ خوشگوار تھا ، اپنی موج میں باتیں کر رہے تھے ، اسی لہر میں کہنے لگے بلدیہ خانپور کے سارے کونسلرز Gay ہیں ، سوائے ایک کونسلر کے ( انہوں نے Gay کی جگہ گاف سے شروع ہونے والا ایک سلیس سا لفظ کہا تھا جو اردو پنجابی اور سرائیکی تینوں زبانوں میں یکساں مستعمل ہے ) میں نے پوچھا جو کونسلر Gay نہیں ہے ، کیا وہ شیخ فیاض ہیں ؟ کہنے لگے ہرگز نہیں ۔۔۔۔ وہ بھی گے ہے ۔ میں نے پوچھا کیا ثبوت ہے ؟ کہنے لگے میں خود ثبوت ہوں ۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں ان سے کیا پوچھتا ۔ لیکن پھر خیال آیا اور میں نے آہستہ سے پوچھ ہی لیا کہ وہ خوش نصیب کونسلر کون ہے جو آپ کے بقول گے نہیں ہے ؟ انہوں نے چہکتے ہوئے کہا لیڈی کونسلر ۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وزیر آغا ایک بار اپنے صاحبزادے سلیم آغا کے ساتھ لندن کی سیاحت کیلئے گئے تھے ۔ ان کی واپسی پر میں اور ڈاکٹر پرویز پروازی ان سے ملنے کے لئے ان کے گاؤں وزیر کوٹ گئے ۔ وزیر آغا اور سلیم لندن کے احوال بتا رہے تھے پرویز پروازی ،ڈاکٹر وزیر آغا کے ایج گروپ کے ہیں ، ان کے دوست بھی ہیں ، سو سلیم آغا ان کا بزرگوں کی طرح احترام کرتے ہیں یکایک پرویز پروازی نے سلیم آغا سے ایک شریر سا سوال پوچھ لیا ۔۔ سنا ہے کہ اصل انگلش نسل خواتین کا Bottom بندر کے Bottom جیسا ہوتا ہے ۔ آپ کا تجربہ کیا کہتا ہےٍ ؟ سلیم آغا کا مزاج بھی اس انداز کی باتوں والا نہیں ہے ، چنانچہ اس اچانک اور بے باک سوال پر وہ شرما کر رہ گئے ۔ لیکن ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑی ہی برجستہ معصومیت کے ساتھ کہا ۔۔۔۔۔۔۔ جس نے بندر کا Bottom5 ہی کبھی نہیں دیکھا ، وہ اس بارے میں کیا بتا سکتا ہے ۔
مشرقی عشق میں بندر کا تو نہیں البتہ کتے کا ایک اہم رول رہا ہے ۔ لیلیٰ کا کتا اس کی واضح مثال ہے ۔ ادھر مغرب میں بھی یہاں کی لیلاؤں اور ان کے کتوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی جا سکتی ہے ۔بعض کتے تو بلی کے بچے سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں ۔ ٹھہریئے مغرب کی بات بعد میں ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں مجھے پاکستان کے ایک عزیز کا ایک نازک سا کتا یاد آ گیا ہے ۔ اس عزیز کو کبوتر بازی کا شوق تھا اوراس نے بلی کے بچے جتنا ایک چھوٹا سا کتا بھی پال رکھا تھا ۔ ایک بار یوں ہوا کہ کتا گھر کی چھت پر کبوتروں کے دڑبے کے پاس بیٹھا تھا ، کبوتر دڑبے سے باہر غڑغوں کر رہے تھے ۔ اچانک وہاں ایک بلی آ گئی ، کتا بچارا بہت ہی نازک سا تھا ۔ اس نے بلی کو دیکھ کر اپنے فرض کا احساس کیا اور کبوتروں کی حفاظت کے طور پر اپنی نازک سی غراہٹ کی آواز نکالی ، اس کے ساتھ ہی شاید اسے خیال آ گیا کہ بلی اسے بھی نقصان پہنچا سکتی ہے ، چنانچہ پھر وہ خود ہی پیچھے ہٹتا چلا گیا ۔ وہ عزیز چھت کی سیٹرھیوں کے اوپر ی حصہ سے خود یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا ۔
مجھے ہمیشہ کتوں سے ڈر لگا ہے ۔ اب یہاں بہت ہی چھوٹے اور نفیس سے کتے دیکھنے کے بعد اتنا حوصلہ ہو گیا ہے کہ انہیں محبت بھری نظروں سے مسکرا کر دیکھ لیتا ہوں مگر تھوڑے فاصلے سے ۔۔۔ جب میں جرمنی میں نیا نیا پہنچا ۔ ایک بار صبح کی سیر کر رہا تھا ۔ نہر کے کنارے کنارے جا رہا تھا مجھ سے کافی آگے ایک نوجوان جوڑا اپنی مستی میں جا رہا تھا ۔ ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا کتا بھی تھا ۔ اس کتے کو بلی کے سائز جتنا سمجھ لیں ۔ اس کم بخت کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور وہ میری طرف منہ کر کے رک گیا میں نے خوفزدہ آواز میں زور سے ہیلو۔۔۔۔ہیلو ، کہہ کر اس مست جوڑے کو پکارا تو کتا باقاعدہ بھونکنے لگا ۔ میں نے اردو میں ہی چلا کر کہا ، اپنے کتے کو سنبھالو ۔۔۔۔ لڑکی نے مڑکر دیکھا اور اتنے زور سے ہنسنے لگی کہ میں خود کو بے وقوف محسوس کرنے لگا ۔ اسی دوران لڑکے نے کتے کو آواز دی تو وہ بھونکتا ہوا اپنے مالکوں کے پاس چلا گیا اور میری جان میں جان آئی ۔
بڑے میاں سو بڑے میاں ، چھوٹے میاں سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔ میرا چھوٹا بیٹا ٹیپو بھی مجھ سے کم ڈرپوک نہیں ہے ۔ پاکستان میں جب ٹیپو اور میرا بھانجا احمد ، دونوں ابھی بہت چھوٹے بچے تھے ، گھر سے باہر گلی میں کھڑے تھے ، اچانک انہیں گلی میں ایک چھوٹا سے کتا دکھائی دیا اور دونوں یہ کہتے ہوئے گھر کو بھاگے ۔ بھادو (بھاگو) ۔۔۔ بھادو ۔۔۔۔۔ شیر آیا ۔ یہاں جرمنی میں جب ٹیپو کی عمر تیرہ سال کی تھی ۔ اسے چیک اپ کے لئے دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا ۔ سائیکل اسٹینڈ پر اس نے اپنی سائیکل لاک کی ، جب ڈاکٹر سے ہو کر واپس آیا تو یہ دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے کہ کوئی اپنا کتا بھی سائیکل اسٹینڈ کے ساتھ باندھ گیا ہے ۔ کتا بے شک چھوٹا تھا لیکن تھا تو کتا ہی ۔۔۔۔ آخر ٹیپو نے چھ سات سال کے ایک جرمن بچے کو پیش کش کی کہ اگر میری سائیکل نکال کر لا دو تو تمھیں ایک مارک دونگا ۔ بچے نے ساری سچویشن سمجھنے کے بعد مسکرا کر آفر قبول کر لی ۔ ٹیپو سے سائیکل کے لاکر کی چابی لی اور آرام سے سائیکل نکال کر لا دی ۔
بات ہو رہی تھی مغربی لیلاؤں کے نازک کتوں کی ۔ نازک اندام گوریاں ننھے منھے سائز کے کتوں کے ساتھ پھر بھی سج جاتی ہیں لیکن بعض گوریوں نے تو ایسے جسیم اور خوفناک کتے پال رکھے ہیں کہ ان کے کتے تو کتے خود ان گوریوں کی طرف دیکھتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے ۔ اہل مغرب کا کتوں سے گہری محبت کرنا بظاہر ان کا معاشرتی انداز لگتا ہے لیکن مجھے اس میں ایک ایسا مذہبی حوالہ محسوس ہوتا ہے جسے شاید اہل مغرب اب تسلیم بھی نہ کریں ۔ اصحاب کہف ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکارتھے اور ان کے ساتھ ان کے کتے کا ذکر موجود ہے ۔ سو مذہب کے ابتدائی سفر میں کتے کی وفاداری نے مسیحی اہل مغرب کو کتے کی طرف زیادہ راغب کیا ۔ اس میں مغربی کلچر کے مختلف رنگ بھی ملتے گئے اور یہ وفادار جانور مغربی معاشرت کا ایک حصہ بن گیا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حالیہ دنوں میں ویاگرا کی ایجاد نے ساری دنیا میں خاصا تہلکہ مچایا ہے ۔ مغرب والوں نے شروع میں اسے جائز ضرورت کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے محض زیادہ سے زیادہ لذت انگیز مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شروع میں ہی چار پانچ اموات کی خبریں آ گئیں ۔ ان ساری اموات سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ بعض کم عمر نوجوان اسے استعمال کر بیٹھے ۔ جنہیں اس کے استعمال کی قطعاً ضرورت نہ تھی یا پھر ایسے ادھیڑ عمروں نے اسے استعمال کیا جنہوں نے پہلے ہی خاصی شراب چڑھا رکھی تھی ۔ ویاگرا شراب تو تھی نہیں کہ پہلی شراب میں مل کر نشہ کو بڑھاتی ۔ ایک صاحب نے شراب اور ویاگرا کے استعال کے بعد ڈسکو کلب کا رخ کیا اور وہیں جان دے دی ۔ یہ دل کے مریضوں کے لئے زہر ہے ، دوسرے کسی نشے کے ساتھ انتہائی مضر ہے ۔ 55 سال کی عمر تک کے لوگوں کے لئے عام طور پر مفید ہے لیکن اس کے لئے جائز ضرورت مند ہونا ضروری ہے ۔ سو اہل مغرب نے اب ویاگرا کا جائز استعمال سمجھ لیا ہے ۔
ان کے برعکس ہمارے بعض مشرقی دانشوروں نے اس دوا کی مخالفت کرتے ہوئے معلم اخلاق بننے کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بعض نے اسے میکانکی عمل قرار دیا ہے ۔ میرا خیال ہے صدیوں تک نوابوں ، راجوں ، مہاراجوں ، بادشاہوں اور شہنشاہوں کے در باری اطباء نے جو نسخہ طبقہ خواص تک محدود رکھا ، اب وہ ویاگرا کی صورت میں زیادہ بہتر ہو کر عام ضرورت مند انسان کو بھی فیض یاب کرنے لگا ہے ۔ ویاگرا کا مثبت استعمال بہت سے ضرورت مندوں کے لئے مفید ثابت ہو گا ۔ جہاں تک میکانکیت کا تعلق ہے ، اگر انسانی جذبات کا تجزیہ کیا جائے تو آج کی سائنس نے اسے بھی کیمیائی تماشہ ثابت کر دیا ہے ۔ فلاں جز کو کم کر دیں تو انسان کا غصہ ختم ہو جائے گا ۔ فلاں جز کو نکال دیں تو غم کا احساس نہیں رہے گا ۔ اور تو اور محبت کا کوئی کیمیائی جز بھی تلاش کر لیا گیا ہے ۔ اسے نکال دیں تو محبت کا جذبہ ہی ختم ہو جائے گا یوں تو پھرمحبت سمیت سارے انسانی جذبات ہی ایک کیمیائی کھیل سے زیادہ کچھ نہیں رہتے ۔ انڈیا کے بارے میں تو میری معلومات زیادہ نہیں ہیں لیکن پاکستان میں " زندگی سے مایوس لوگوں کے لئے خوشخبری " جتانے والے دیسی معالج لاکھوں کی تعداد میں دوکانیں سجائے بیٹھے ہیں جبکہ ان میں 99 فی صد فراڈ ہیں جو مجبور ضرورتمندوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں ۔ ویاگرا کی آمدسے فراڈ قسم کے دیسی معالجین کو خاصا نقصان پہنچے گا ۔
جنسی عمل ہر ذی روح کی زندگی کا اہم حصہ ہے ۔ انسانوں میں اسے اچھے انسانی اور فطری طریقے سے بروئے کار لانے میں ہی بہتری ہے ۔ اس سلسلے میں مغرب اور مشرق کے عمومی رویے انتہا پسندانہ ہیں ۔ اہل مغرب نے سب کچھ کھول کھال کر رکھ دیا ہے ، کچھ بھی مخفی نہیں رہنے دیا جبکہ اہل مشرق نے اس عمل کو ایک طرح سے شٹل کاک برقعہ سے ڈھانپ رکھا ہے ۔ ہم پردے کے اندر سب کچھ کر گذرتے ہیں ۔ یوں ہمارا معاشرہ دوہرے پن کا ملزم قرار پاتا ہے ۔ مشرق اور مغرب کے دونوں رویوں کو کسی حد تک سمجھ لینے کے بعد میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ بقائے نسل انسانی کے اس اہم ترین عمل کو شٹل کاک برقعہ سے ملفوف رکھنے کی بجائے ریشمیں برقعہ جتنا پردہ رکھنا چاہیئے ۔ دوہرا لیکن خاصا باریک نقاب ۔ جں میں سے ایک نقاب آنکھوں کو کھلا چھوڑتے ہوئے دوسرے کان تک چلا جائے اور ایک نقاب پورے چہرے پر پڑا رہے ۔ یعنی تھوڑا سا پردہ بہرحال ضروری ہے ۔
***