Freitag, 15. Juli 2011

اخلاقی قدریں اور ویا گرا

اخلاقی قدریں اور ویا گرا


میرے بچپن کے دور میں رحیم یار خاں اور مقامی آبادی میں خواتین کے لئے شٹل کا ک برقعہ رائج تھا ۔ شہری لوگوں میں تھوڑی تھوڑی تبدیلی آ رہی تھی ۔ سفید کفن نما برقعہ کی جگہ ریشمیں کپڑے کا سیاہ برقعہ پہنا جانے لگا تھا ۔ شٹل کاک برقعہ والے حلقے میں لیڈی ہملٹن کے سیاہ برقعے کو " بے حیائی " سمجھا جاتا تھا۔ میرے جوان ہونے تک ۔۔۔۔۔ یعنی بیس سال کے اندر اندر ہی نہ صر ف شٹل کاک برقعہ تقریباً غائب ہو گیا بلکہ سیاہ برقعہ سے بڑھ کر چادریں اوڑھنے کا رواج شروع ہو گیا۔ اب تو ان شہروں میں صرف دوپٹہ اوڑھے ہوئے بلکہ دوپٹہ گلے میں ڈالے ہوئے بیبیاں بھی عام دکھائی دیتی ہیں ۔ لڑکیوں کو پڑھائی کرانے کامعاملہ بھی شروع میں کچھ ایسا ہی تھا ۔ خانپور میں ہماری ایک ہمسائی ماسی خانزادی لڑکیوں کو پڑھانے کی سخت مخالف تھیں ۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکیاں پڑھنا لکھنا سیکھ جائیں تو اپنے یاروں کو محبت نامے لکھتی ہیں ۔ بعض دوسری ہمسائیوں کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو پانچ جماعت تک تعلیم ضرور حاصل کرنا چاہیئے ۔ ہمارے گھر والوں کے مطابق بچیوں کو دسویں تک تعلیم دلانے میں کوئی حرج نہیں لیکن کالج کی تعلیم ٹھیک نہیں تھی ۔ پھر ہمارے اپنے ہی عزیزوں اور احباب میں تین طرح کے لوگ ملے ۔ ایک کے نزدیک لڑکیوں کو کالج تک پڑھانے میں کوئی حرج نہیں لیکن یونیورسٹی نہیں بھیجیں ، وہاں ماحول بہت زیادہ کھلا ہوتا ہے ۔ دوسروں کے موقف کے مطابق لڑکیوں کو یونیورسٹی تک تعلیم تو دلانا چاہیئے لیکن ملازمت نہیں کرانا چاہیئے ۔ کیونکہ خواتین کوملازمت کرانے دیں تو اس سے بہت سارے اخلاقی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ۔جبکہ تیسروں کے نزدیک خواتین کا ملازمت کرنا قابلِ اعتراض نہیں تھا۔ان کے خیال کے مطابق اخلاقی مسائل اَن پڑھ دیہاتی ماحول میں بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ تعلیم اور ملازمت سے خواتین میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے ۔ برقعہ کی سخت پابندی اور لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت سے شروع ہونے والا " اخلاقی قدروں "کا سفر وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی اپنے آپ کو بدلتا چلا گیا ۔ ایسے ماحول میں ہی میں پلا بڑھا اور اس کے مختلف اثرات مجھ پر مرتسم ہوئے۔
اخلاقیات کی ایک قسم تو عالمی اور دائمی نوعیت کی ہے ، جو تمام مذاہب میں قدر مشترک ہے ، تاہم کبھی کبھی انفرادی نوعیت کی اخلاقیات اپنا جواز خود لے کر آتی ہے ۔ غالباً 1975 ء کی بات ہے ، بزم فرید خانپور کی مقامی نوعیت کی ادبی تقریبات کا سلسلہ جاری تھا ۔ تب ہی ریڈیو پاکستان بہاولپور کی ریکارڈنگ ٹیم خانپور آئی ۔ نصراللہ خاں ناصر پروڈیوسر تھے ۔ ہم نے گورنمنٹ سکول حلقہ نمبر ۲ میں ایک چھوٹے سے مشاعرے کا انتظام کیا ۔ صدارت کے لئے شیخ فیاض الدین کو مدعو کیا گیا جو خانپور کے تجارتی حلقوں کی معروف شخصیت تھے ۔ شاعری کے اچھے قاری اور سامع تھے ۔ مشاعرہ بعد از نماز مغرب ہونا تھا ۔ سو جیسے ہی مشاعرہ شروع ہونے لگا ، شیخ فیاض کے دو ملازم ، ایک نوجوان کو اس طرح پکڑے ہوئے اندر لائے کہ صرف قمیص نوجوان کے تن پر تھی اور اس کی دھوتی ایک ملازم کے ہاتھ میں تھی ۔ ملازموں نے یہ بتایا کہ یہ بدکار قریب کے ویرانے میں ایک گدھی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کر رہا تھا اور وہ اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لائے ہیں ۔ نوجوان کے چہرے پر خوف اور شرمندگی کے گہرے اثرات تھے ۔ شیخ فیاض نے اس نوجوان سے اس کے دو تین نجی کوائف دریافت کئے ۔ کوئی بے حد مفلوک الحال تھا ۔ شیخ فیاض نے اپنے ملازمین کو ڈانٹ کر کہا یہ اتنا غریب ہے کہ نہ تو شادی کر سکتا ہے نہ کوٹھے پر جا سکتا ہے ۔ ایسے حال میں یہ غلطی کر بیٹھا ہے تو تمہیں اس سے کیا نقصان پہنچا ہے ، چلو اس کی دھوتی اسے واپس کر و ۔۔۔۔۔ پھر اس نوجوان سے بڑی ملائمت سے کہا جا بچے جا ۔۔۔۔ یہ واقعہ کوئی بہت بڑا واقعہ نہیں تھا لیکن میں جزا ، سزا کے جن تصورات کو بے حد اہمیت دیتا تھا ، مجھے پہلی دفعہ ان میں معافی کی گنجائش محسوس ہوئی ۔ شیخ فیاض کے رویے کا میں کوئی جواز نہیں دینا چاہتا ۔شاید دے ہی نہیں سکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ تب سے مجھے شیخ فیاض بحیثیت انسان ہمیشہ اچھے لگے ۔
اس سے مختلف ایک اور واقعہ چند سال پہلے جرمنی میں ہوا تھا ۔ ایک معروف مذہبی جماعت کے ایک سابقہ اعلیٰ عہدیدار جو عمر کے لحاظ سے لگ بھگ 60 کے پیٹے میں تھے ، ایک 40 سالہ پاکستانی خاتون کے ساتھ ایک آئس شاپ کے بیس منٹ کی ٹائلٹ سے پکڑے گئے ۔ ہوا یوں کہ دونوں کو محبت بڑھانے کے لئے Langen شہر کی ایک اٹالین آئس کریم شاپ مناسب لگی ۔ عشق کے اگلے مراحل طے کرنے کے لئے طے شدہ پروگرام کے مطابق پہلے خاتون بیس منٹ میں گئیں ، پھر وہ بزرگ بھی بیس منٹ میں اتر گئے ۔ اتفاق کی بات تھی کاؤنٹر پر موجود اطالوی دوکاندار نے خاتون کو نیچے جاتے نہیں دیکھا تھا لیکن بزرگ کو جاتے دیکھ لیا ۔ چنانچہ جب بزرگ کی واپسی میں دیر ہونے لگی تو دوکاندار کو یہ خدشہ ہوا کہ بزرگ آدمی تھے کہیں لیٹرین میں ہی دل کا دورہ نہ پڑ گیا ہو ۔ چنانچہ اس پریشانی کے ساتھ جب وہ نیچے گئے تو مردانہ لیٹرین کا دروازہ کھٹکٹانے پر مضحکہ خیز نظارا سامنے آیا ۔ مذکورہ خاتون اپنا لباس درست کرتی ہوئی اور بزرگوار اپنی بیلٹ باندھتے ہوئے باہر نکلے ۔ یورپ میں باہمی رضامندی سے ہونے والا جنسی عمل کوئی سماجی یا اخلاقی مسئلہ نہیں ہے ۔ لیکن لیٹرین میں Sex Play یورپ والوں کے لئے مضحکہ خیز حرکت ضرور تھی ۔ سو یوں یہ قصہ یہاں عام ہوا ۔
ان دو مختلف نوعیت کے واقعات کے ساتھ مجھے ایک ہولناک واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ خانپور میں سیال فیملی کے لوگ ہمارے ہمسائے تھے ۔ عمومی طور پر یہ سب ہی اچھے لوگ تھے ۔ چھوٹی موٹی ناراضیاں تو قریبی رشتہ داروں میں بھی ہوتی ہیں یہ تو پھر ہمسائے تھے ۔ سارے لوگ اپنی سماجی اخلاقیات کے پابند تھے ۔ 1982 ء میں جب ہم نے اپنا پرانا گھر فروخت کیا اور ماڈل ٹاؤن میں کرائے کے ایک مکان میں منتقل ہونے لگے تو سیال فیملی کے ایک دوست ملنے آئے ۔ مکان کا سودا کرانے میں انہوں نے بھی تھوڑا سا مثبت کردار ادا کیا تھا ۔ بظاہر وہ مجھے خدا حافظ کہنے آئے تھے لیکن میں اس وقت سناٹے میں آ گیا جب انہوں نے بڑی لپٹی ہوئی مگر کچھ اس مفہوم میں بات کی کہ میرے ملنے جلنے والے دوست احباب بہت ہیں اس لئے یہ گھر تو بہت چھوٹا تھا ۔ بات کا طنزیہ انداز ایسا تھا جس کا میرے ذہن میں کہیں شائبہ تک نہ تھا ۔ شاید وہ مجھے ذہنی اذیت میں مبتلا کر کے لطف اٹھانا چاہتے تھے ۔ سو بظاہر تو نہیں لیکن اندر ہی اندر مجھے کہیں اذیت سی ضرور محسوس ہوئی ۔ آخر انہوں ایسا گمان بھی کیوں کیا ؟ ۔۔۔۔۔ اور ایک دن یہ اذیت بالکل ختم ہو گئی ۔ خانپور شہر کی تاریخ کا یہ ہولناک سانحہ یکایک سامنے آیا ۔ سیال فیملی کے اسی کرم فرما کی دو بیٹیوں اور تین لڑکوں کو پولیس نے دن دہاڑے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا ۔ ایک مکان میں دونوں بہنیں مذکورہ لڑکوں کے ساتھ فحش فلمیں دیکھتے ہوئے وہی سین دہرا رہی تھیں ۔ اس سانحہ کے ساتھ مزید المیہ یہ ہوا کہ جائے وقوعہ سے پولیس اسٹیشن تک سارے گرفتار شدگان کو ننگے پاؤں پیدل چلا کر لایا گیا ۔ سب کے تن پر صرف ان کی لمبی قمیصیں تھیں جبکہ سب کی شلواریں اور جوتے ان کے سروں پر دھرے تھے ۔ آگے عبرت کی ایک الگ داستان ہے ۔ یہ واقعہ کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ سا بیان ہو گیا ہے ، اس لئے ہلکی پھلکی شرارت والی یادوں کو کریدتا ہوں ۔
چند سال پہلے بخش لائلپوری لندن سے جرمنی آئے ۔ میرے ہاں مقیم تھے ۔ ان سے جو باتیں ہوئیں ‘ ان میں ایک قصہ بے حد مزے کا تھا ۔ مغرب میں جنسی آزادی ( بے راہروی ) کا مغرب والوں کا اپنا الگ سا تصور ہے ۔ بچوں کے لئے طرح طرح کی گڑیائیں بنانے والوں نے بڑوں کے لئے بھی گڑیائیں بنا دی ہیں ۔ مارکیٹ میں ربڑ کی ایسی گڑیائیں دستیاب ہیں جن میں ہوا بھردیں تو وہ پوری عورت بن جائے ۔ پاکستان سے ایک ادیب لندن گئے تو سیرو سیاحت کے ساتھ ربڑ کی گڑیا بھی خریدی ۔ پھر وطن چلے گئے ۔ چند دن کے بعد بخش لائلپوری کے نام ان کا خط آیا کہ وہ ربڑ کی گڑیا پنکچر ہو گئی ہے ، تم جانتے ہومیں ایک معزز آدمی ہوں اس لئے کسی دوکان پر پنکچر لگوانے کے لئے نہیں جا سکتا ۔ تم مہربانی کرو اور ربڑ کی ایک اور گڑیا لے کر مجھے بھیج دو ۔ چنانچہ بخش لائل پوری نے ان کی فرمائش پوری کر دی۔ تاہم بخش لائل پوری نے گڑیا کے پنکچر ہو جانے کا قصہ ایسے انداز سے سنایا کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑ گئے ۔ میں نے انہیں کہا آپ اس معزز ادیب کی فرمائش پوری کرنے کی بجائے اسے لکھتے کہ پہلے سائیکلوں کی مرمت کرنے والے کسی کاری گر کے شاگرد بنو ، وہاں سے پنکچر لگانے کی تربیت حاصل کرو اور پھر خود ہی اپنے کئے ہوئے پنکچر ٹھیک کرتے رہو ۔
ایک اور مزے کا واقعہ ۔۔۔۔۔ اکبر بابر ایڈووکیٹ خانپورکے ممتاز وکلاء میں شمار ہوتے تھے۔اپنے ہی مُوڈ کے آدمی تھے۔شیخ فیاض الدین کی اور ان کی گہری دوستی تھی۔اُن دنوں شیخ فیاض بلدیہ خانپور کے چےئر مین تھے ۔ اکبر بابر کا موڈ خوشگوار تھا ، اپنی موج میں باتیں کر رہے تھے ، اسی لہر میں کہنے لگے بلدیہ خانپور کے سارے کونسلرز Gay ہیں ، سوائے ایک کونسلر کے ( انہوں نے Gay کی جگہ گاف سے شروع ہونے والا ایک سلیس سا لفظ کہا تھا جو اردو پنجابی اور سرائیکی تینوں زبانوں میں یکساں مستعمل ہے ) میں نے پوچھا جو کونسلر Gay نہیں ہے ، کیا وہ شیخ فیاض ہیں ؟ کہنے لگے ہرگز نہیں ۔۔۔۔ وہ بھی گے ہے ۔ میں نے پوچھا کیا ثبوت ہے ؟ کہنے لگے میں خود ثبوت ہوں ۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں ان سے کیا پوچھتا ۔ لیکن پھر خیال آیا اور میں نے آہستہ سے پوچھ ہی لیا کہ وہ خوش نصیب کونسلر کون ہے جو آپ کے بقول گے نہیں ہے ؟ انہوں نے چہکتے ہوئے کہا لیڈی کونسلر ۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وزیر آغا ایک بار اپنے صاحبزادے سلیم آغا کے ساتھ لندن کی سیاحت کیلئے گئے تھے ۔ ان کی واپسی پر میں اور ڈاکٹر پرویز پروازی ان سے ملنے کے لئے ان کے گاؤں وزیر کوٹ گئے ۔ وزیر آغا اور سلیم لندن کے احوال بتا رہے تھے پرویز پروازی ،ڈاکٹر وزیر آغا کے ایج گروپ کے ہیں ، ان کے دوست بھی ہیں ، سو سلیم آغا ان کا بزرگوں کی طرح احترام کرتے ہیں یکایک پرویز پروازی نے سلیم آغا سے ایک شریر سا سوال پوچھ لیا ۔۔ سنا ہے کہ اصل انگلش نسل خواتین کا Bottom بندر کے Bottom جیسا ہوتا ہے ۔ آپ کا تجربہ کیا کہتا ہےٍ ؟ سلیم آغا کا مزاج بھی اس انداز کی باتوں والا نہیں ہے ، چنانچہ اس اچانک اور بے باک سوال پر وہ شرما کر رہ گئے ۔ لیکن ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑی ہی برجستہ معصومیت کے ساتھ کہا ۔۔۔۔۔۔۔ جس نے بندر کا Bottom5 ہی کبھی نہیں دیکھا ، وہ اس بارے میں کیا بتا سکتا ہے ۔
مشرقی عشق میں بندر کا تو نہیں البتہ کتے کا ایک اہم رول رہا ہے ۔ لیلیٰ کا کتا اس کی واضح مثال ہے ۔ ادھر مغرب میں بھی یہاں کی لیلاؤں اور ان کے کتوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی جا سکتی ہے ۔بعض کتے تو بلی کے بچے سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں ۔ ٹھہریئے مغرب کی بات بعد میں ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں مجھے پاکستان کے ایک عزیز کا ایک نازک سا کتا یاد آ گیا ہے ۔ اس عزیز کو کبوتر بازی کا شوق تھا اوراس نے بلی کے بچے جتنا ایک چھوٹا سا کتا بھی پال رکھا تھا ۔ ایک بار یوں ہوا کہ کتا گھر کی چھت پر کبوتروں کے دڑبے کے پاس بیٹھا تھا ، کبوتر دڑبے سے باہر غڑغوں کر رہے تھے ۔ اچانک وہاں ایک بلی آ گئی ، کتا بچارا بہت ہی نازک سا تھا ۔ اس نے بلی کو دیکھ کر اپنے فرض کا احساس کیا اور کبوتروں کی حفاظت کے طور پر اپنی نازک سی غراہٹ کی آواز نکالی ، اس کے ساتھ ہی شاید اسے خیال آ گیا کہ بلی اسے بھی نقصان پہنچا سکتی ہے ، چنانچہ پھر وہ خود ہی پیچھے ہٹتا چلا گیا ۔ وہ عزیز چھت کی سیٹرھیوں کے اوپر ی حصہ سے خود یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا ۔
مجھے ہمیشہ کتوں سے ڈر لگا ہے ۔ اب یہاں بہت ہی چھوٹے اور نفیس سے کتے دیکھنے کے بعد اتنا حوصلہ ہو گیا ہے کہ انہیں محبت بھری نظروں سے مسکرا کر دیکھ لیتا ہوں مگر تھوڑے فاصلے سے ۔۔۔ جب میں جرمنی میں نیا نیا پہنچا ۔ ایک بار صبح کی سیر کر رہا تھا ۔ نہر کے کنارے کنارے جا رہا تھا مجھ سے کافی آگے ایک نوجوان جوڑا اپنی مستی میں جا رہا تھا ۔ ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا کتا بھی تھا ۔ اس کتے کو بلی کے سائز جتنا سمجھ لیں ۔ اس کم بخت کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور وہ میری طرف منہ کر کے رک گیا میں نے خوفزدہ آواز میں زور سے ہیلو۔۔۔۔ہیلو ، کہہ کر اس مست جوڑے کو پکارا تو کتا باقاعدہ بھونکنے لگا ۔ میں نے اردو میں ہی چلا کر کہا ، اپنے کتے کو سنبھالو ۔۔۔۔ لڑکی نے مڑکر دیکھا اور اتنے زور سے ہنسنے لگی کہ میں خود کو بے وقوف محسوس کرنے لگا ۔ اسی دوران لڑکے نے کتے کو آواز دی تو وہ بھونکتا ہوا اپنے مالکوں کے پاس چلا گیا اور میری جان میں جان آئی ۔
بڑے میاں سو بڑے میاں ، چھوٹے میاں سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔ میرا چھوٹا بیٹا ٹیپو بھی مجھ سے کم ڈرپوک نہیں ہے ۔ پاکستان میں جب ٹیپو اور میرا بھانجا احمد ، دونوں ابھی بہت چھوٹے بچے تھے ، گھر سے باہر گلی میں کھڑے تھے ، اچانک انہیں گلی میں ایک چھوٹا سے کتا دکھائی دیا اور دونوں یہ کہتے ہوئے گھر کو بھاگے ۔ بھادو (بھاگو) ۔۔۔ بھادو ۔۔۔۔۔ شیر آیا ۔ یہاں جرمنی میں جب ٹیپو کی عمر تیرہ سال کی تھی ۔ اسے چیک اپ کے لئے دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا ۔ سائیکل اسٹینڈ پر اس نے اپنی سائیکل لاک کی ، جب ڈاکٹر سے ہو کر واپس آیا تو یہ دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے کہ کوئی اپنا کتا بھی سائیکل اسٹینڈ کے ساتھ باندھ گیا ہے ۔ کتا بے شک چھوٹا تھا لیکن تھا تو کتا ہی ۔۔۔۔ آخر ٹیپو نے چھ سات سال کے ایک جرمن بچے کو پیش کش کی کہ اگر میری سائیکل نکال کر لا دو تو تمھیں ایک مارک دونگا ۔ بچے نے ساری سچویشن سمجھنے کے بعد مسکرا کر آفر قبول کر لی ۔ ٹیپو سے سائیکل کے لاکر کی چابی لی اور آرام سے سائیکل نکال کر لا دی ۔
بات ہو رہی تھی مغربی لیلاؤں کے نازک کتوں کی ۔ نازک اندام گوریاں ننھے منھے سائز کے کتوں کے ساتھ پھر بھی سج جاتی ہیں لیکن بعض گوریوں نے تو ایسے جسیم اور خوفناک کتے پال رکھے ہیں کہ ان کے کتے تو کتے خود ان گوریوں کی طرف دیکھتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے ۔ اہل مغرب کا کتوں سے گہری محبت کرنا بظاہر ان کا معاشرتی انداز لگتا ہے لیکن مجھے اس میں ایک ایسا مذہبی حوالہ محسوس ہوتا ہے جسے شاید اہل مغرب اب تسلیم بھی نہ کریں ۔ اصحاب کہف ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکارتھے اور ان کے ساتھ ان کے کتے کا ذکر موجود ہے ۔ سو مذہب کے ابتدائی سفر میں کتے کی وفاداری نے مسیحی اہل مغرب کو کتے کی طرف زیادہ راغب کیا ۔ اس میں مغربی کلچر کے مختلف رنگ بھی ملتے گئے اور یہ وفادار جانور مغربی معاشرت کا ایک حصہ بن گیا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حالیہ دنوں میں ویاگرا کی ایجاد نے ساری دنیا میں خاصا تہلکہ مچایا ہے ۔ مغرب والوں نے شروع میں اسے جائز ضرورت کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے محض زیادہ سے زیادہ لذت انگیز مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شروع میں ہی چار پانچ اموات کی خبریں آ گئیں ۔ ان ساری اموات سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ بعض کم عمر نوجوان اسے استعمال کر بیٹھے ۔ جنہیں اس کے استعمال کی قطعاً ضرورت نہ تھی یا پھر ایسے ادھیڑ عمروں نے اسے استعمال کیا جنہوں نے پہلے ہی خاصی شراب چڑھا رکھی تھی ۔ ویاگرا شراب تو تھی نہیں کہ پہلی شراب میں مل کر نشہ کو بڑھاتی ۔ ایک صاحب نے شراب اور ویاگرا کے استعال کے بعد ڈسکو کلب کا رخ کیا اور وہیں جان دے دی ۔ یہ دل کے مریضوں کے لئے زہر ہے ، دوسرے کسی نشے کے ساتھ انتہائی مضر ہے ۔ 55 سال کی عمر تک کے لوگوں کے لئے عام طور پر مفید ہے لیکن اس کے لئے جائز ضرورت مند ہونا ضروری ہے ۔ سو اہل مغرب نے اب ویاگرا کا جائز استعمال سمجھ لیا ہے ۔
ان کے برعکس ہمارے بعض مشرقی دانشوروں نے اس دوا کی مخالفت کرتے ہوئے معلم اخلاق بننے کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بعض نے اسے میکانکی عمل قرار دیا ہے ۔ میرا خیال ہے صدیوں تک نوابوں ، راجوں ، مہاراجوں ، بادشاہوں اور شہنشاہوں کے در باری اطباء نے جو نسخہ طبقہ خواص تک محدود رکھا ، اب وہ ویاگرا کی صورت میں زیادہ بہتر ہو کر عام ضرورت مند انسان کو بھی فیض یاب کرنے لگا ہے ۔ ویاگرا کا مثبت استعمال بہت سے ضرورت مندوں کے لئے مفید ثابت ہو گا ۔ جہاں تک میکانکیت کا تعلق ہے ، اگر انسانی جذبات کا تجزیہ کیا جائے تو آج کی سائنس نے اسے بھی کیمیائی تماشہ ثابت کر دیا ہے ۔ فلاں جز کو کم کر دیں تو انسان کا غصہ ختم ہو جائے گا ۔ فلاں جز کو نکال دیں تو غم کا احساس نہیں رہے گا ۔ اور تو اور محبت کا کوئی کیمیائی جز بھی تلاش کر لیا گیا ہے ۔ اسے نکال دیں تو محبت کا جذبہ ہی ختم ہو جائے گا یوں تو پھرمحبت سمیت سارے انسانی جذبات ہی ایک کیمیائی کھیل سے زیادہ کچھ نہیں رہتے ۔ انڈیا کے بارے میں تو میری معلومات زیادہ نہیں ہیں لیکن پاکستان میں " زندگی سے مایوس لوگوں کے لئے خوشخبری " جتانے والے دیسی معالج لاکھوں کی تعداد میں دوکانیں سجائے بیٹھے ہیں جبکہ ان میں 99 فی صد فراڈ ہیں جو مجبور ضرورتمندوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں ۔ ویاگرا کی آمدسے فراڈ قسم کے دیسی معالجین کو خاصا نقصان پہنچے گا ۔
جنسی عمل ہر ذی روح کی زندگی کا اہم حصہ ہے ۔ انسانوں میں اسے اچھے انسانی اور فطری طریقے سے بروئے کار لانے میں ہی بہتری ہے ۔ اس سلسلے میں مغرب اور مشرق کے عمومی رویے انتہا پسندانہ ہیں ۔ اہل مغرب نے سب کچھ کھول کھال کر رکھ دیا ہے ، کچھ بھی مخفی نہیں رہنے دیا جبکہ اہل مشرق نے اس عمل کو ایک طرح سے شٹل کاک برقعہ سے ڈھانپ رکھا ہے ۔ ہم پردے کے اندر سب کچھ کر گذرتے ہیں ۔ یوں ہمارا معاشرہ دوہرے پن کا ملزم قرار پاتا ہے ۔ مشرق اور مغرب کے دونوں رویوں کو کسی حد تک سمجھ لینے کے بعد میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ بقائے نسل انسانی کے اس اہم ترین عمل کو شٹل کاک برقعہ سے ملفوف رکھنے کی بجائے ریشمیں برقعہ جتنا پردہ رکھنا چاہیئے ۔ دوہرا لیکن خاصا باریک نقاب ۔ جں میں سے ایک نقاب آنکھوں کو کھلا چھوڑتے ہوئے دوسرے کان تک چلا جائے اور ایک نقاب پورے چہرے پر پڑا رہے ۔ یعنی تھوڑا سا پردہ بہرحال ضروری ہے ۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen