Freitag, 15. Juli 2011

زندگی دَر زندگی

زندگی دَر زندگی

یادوں کے گزشتہ باب لبیک اللھم لبیک کی اشاعت کے بعد میرے قریبی دوست احباب نے میرے ۲۶ جنوری ۲۰۰۹ء والے خواب اور اس کی ممکنہ تعبیر کے سلسلے میں مزید اپنی اپنی رائے سے نوازا ہے۔ بعض تاثرات دوستوں اور بزرگوں کی محبت یا ہمدردی پر مبنی ہیں۔ بعض تاثرات میں خواب کو واہمہ جیسا سمجھا گیا ہے اور مجھے بھی یہی باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔شمس الرحمن فاروقی(الٰہ آباد)،محمد عمر میمن(امریکہ)،شمیم حنفی (دہلی ) ، ڈاکٹرعلی جاوید(دہلی)،اشعر نجمی(تھانے)،سلطان جمیل نسیم (کینیڈا)،منشا یاد(اسلام آباد)وغیرہ اسی زمرہ میں آتے ہیں۔البتہ ان میں سے منشا یاد نے تو کسی حد تک غصہ کرکے میری توجہ موت کے احساس سے ہٹانا چاہی جبکہ شمیم حنفی نے میری تحریر کو ادبی طور پر بہت پسند کرتے ہوئے مجھے مزید لکھنے کی تحریک کی۔ایوب خاور(کراچی)،خورشید اقبال (۲۴ پرگنہ) ، شبانہ یوسف(انگلینڈ )، ارشدخالد(اسلام آباد)،عبدالرب استاد(گلبرگہ)،احمد حسین مجاہد(ایبٹ آباد)عظیم انصاری (کلکتہ) ،ان احباب نے تو بہت زیادہ جذباتی جوش کے ساتھ میرا خیال رکھا۔ان میں سے بیشتر کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ پروین شیر(کینیڈا)،شہناز خانم عابدی(کینیڈا)،ڈاکٹر صغریٰ صدف (لاہور) ،سلیمان جاذب(دبئی)،بشریٰ ملک(جرمنی) وغیرہ احباب جیسے درازئ عمر کی دعا میں مشغول ہو گئے۔جوگندر پال جی کا ٹیلی فون آگیا،دیر تک باتیں کرتے رہے۔میرا حوصلہ بڑھاتے رہے،تحریر کی سچائی پر داد دیتے رہے۔میں نے انہیں کہا کہ یہ آپ کے ’’خود وفاتیہ‘‘طرزکی تحریر ہے،کہنے لگے :تمہاری واردات بہت گاڑھی ہے۔بعض احباب نے خواب کا غلط ہونا قرار دیا ہے تو بعض نے اس کی تاویل کرکے تعبیرکسی اور زاویے سے دیکھی ہے۔مذکورہ بالا احباب کے تاثرات اگر یکجا کرنے بیٹھوں تو پورا ایک باب بن جائے گا،لیکن ظاہر ہے وہ سارا میٹر ان کی میرے تئیں،محبت اور ہمدردی کا غماز ہے اس لیے اسے یہاں درج کرنے کی بجائے ذاتی ریکارڈمیں ہی سنبھال رکھتا ہوں۔
تین تاویلیں ایسی ہیں کہ میں انہیں یہاں درج کرنا چاہوں گا۔میرے ماموں صادق باجوہ کا کہنا ہے کہ خواب میں موت سے مراد لمبی عمر ہے۔میرے خیال میں خواب میں کسی زندہ انسان کی موت کی خبر ملنایا اسے مردہ دیکھنا تو اس کی لمبی عمر کی علامت ہو سکتی ہے لیکن اس طرح معین تاریخ وفات کی خبر سے مراد لمبی عمر شاید نہیں بنتی۔باقی واللہ اعلم۔
کینیڈا سے عبداللہ جاوید صاحب کی تاویل مجھے مزے کی لگی۔ان کے بقول :جیسے کسی بچے کو کسی شرارت یا کام سے روکنے کے لیے کسی تاریک کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھول کر دکھایا جائے اور پھر دروازہ بند کرکے بچے کو ڈرایا جائے کہ اگر تم شرارت سے باز نہ آئے تو تمہیں اس کمرے میں بند کردیا جائے گا۔بالکل اسی طرح ۳ دسمبر کی تاریخ بتا کر اللہ میاں نے موت کے تاریک دروازے کا ڈراوا دیا تھا۔لیکن یہ ضدی بچہ شرارت کو چھوڑ کر دروازے کے اندر میں دلچسپی لینے لگا۔دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا کہ شرارت ورارت کا معاملہ چھوڑیں یہ دروازہ کھولیں مجھے اس کمرے میں جانا ہے۔دیکھوں تو سہی اندر کیا ہے۔جب دروازہ نہیں کھلا تو ۲۶ نومبر آنے تک اس نے زور زور سے دروازہ کھٹکانا شروع کر دیا۔اور پھر ۲۶ نومبر سے ۳ دسمبر تک اس بچے نے دروازہ کھٹکھٹانا اور شور مچانا جاری رکھا۔
ایک طرف تعبیر و تاویل کا یہ سلسلہ تھا دوسری طرف بعض دوستوں کا کہنا تھا کہ خواب غلط ثابت ہو چکا ہے۔اس پر میری اہلیہ مبارکہ نے بڑی انوکھی نشان دہی کی۔مبارکہ کی تاویل بیان کرنے سے پہلے دو وضاحتیں کر دوں۔پہلی وضاحت:اپنے قریشی ہونے کی نسبت سے،اپنی تمام تر کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود میں خود کو ہمیشہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی آل میں شمار کرتا ہوں۔مجھے گہرا احساس ہے کہ روحانی سطح پر مجھ خاک کی اُس عالمِ پاک سے کوئی نسبت نہیں ہے۔پر کچھ ہے تو سہی۔دوسری وضاحت:خواب کی تعبیر و تاویل میں جوایک مماثلت کا بیان آگے آنے والا ہے،وہ صرف خواب کی تفہیم کے سلسلہ میں ایک مثال کے طور پر ہے،وگرنہ میں ابراہیمی سمندر کے سامنے ایک قطرہ اور صحرا کے سامنے ایک ذرہ جتنی وقعت کا بھی حامل نہیں ہوں۔یہ وضاحت اس لیے نہیں کر رہا کہ کوئی مذہبی انتہا پسند میری بات سے کوئی اشتعال انگیزی نہ کر گزرے۔بلکہ اس لیے کر رہا ہوں کہ اس اظہار کے نتیجہ میں کہیں میرے اپنے اندر کوئی فتور نہ آجائے ۔بس میری یہ تحریر مجھے میری اوقات کا احساس دلاتی رہے۔
ان وضاحتوں کے بعد مبارکہ کی بیان کردہ تعبیر و تاویل پیش کرتا ہوں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔انہوں نے بیٹے کو اپنا خواب بتایا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فوراََخواب کو پورا کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔اب صورتحال یہ بنی کہ باپ بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے اور بیٹا قربان ہونے کو تیار ہے۔جب خدا نے دیکھا کہ باپ بیٹا دونوں اس کی رضا پر راضی اور اس کے حکم کی تعمیل پر کمر بستہ ہیں تو قربانی کے حکم کے باوجود ذبح کرنے سے روک دیا گیا اور خواب کی تعبیر مینڈھا بھیج کر پوری کر دی گئی۔یوں خواب دوسرے رنگ میں پورا ہو گیا۔
میرے خواب میں ایک معین تاریخ وفات کی خبر کے بعد میری طرف سے ایک لمحہ کے لیے بھی موت کا ڈر یا خوف پیدا نہیں ہوا۔اسی برس پے در پے دہلا دینے والے سانحات نے بھی مجھے کسی یاس انگیز کیفیت میں نہیں جانے دیا۔لبیک اللہم لبیک میں جتنا میں ہشاش بشاش ہوں اتنا ہی میں گزشتہ برس اپنی زندگی میں ہشاش بشاش رہا اور ۳ دسمبر کا وعدۂ وصل کی طرح انتظار کرتا رہا۔میری اس کیفیت کو میرے وہ تمام عزیز اور احباب بخوبی جانتے ہیں جو گزشتہ برس میرے ساتھ مسلسل رابطہ میں رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس خدا نے یہ خواب دکھایاتھا اور جوہمارے دلوں کے بھید ہم دل والوں سے بھی زیادہ جانتا ہے،وہ بخوبی جانتا ہے کہ میں اس سلسلہ میں کس حد تک راضی برضا ہو گیا تھا۔سو موت کی خبر پا کر اس کے لیے کسی خوف کے بغیر آمادہ ہوجانے کی سال بھر کی کیفیت کو دیکھ کر میرے خدا نے بھی ۳ دسمبر کی تعبیر کسی اور رنگ میں بدل دی۔کس رنگ میں بدلی؟ یہ ابھی تک مجھے بھی علم نہیں ہے۔
کچھ عزیزوں نے کہا کہ اللہ کے نیک بندوں پر بیماریوں کی یلغار کی صورت میں ابتلا اور آزمائش آتے ہیں۔اس پر میں نے کہا کہ میں ان بلاؤں کے آنے پر شاکی نہیں ہوں لیکن خدا کی قسم میں اللہ کا نیک بندہ نہیں ہوں،اس کا گنہگار بندہ ہوں۔ایک کرم فرما نے فرمایا کہ یہ گناہوں کی سزا ہے۔میں نے کہا میری گناہوں کے سلسلہ میں اپنی ایک سوچ ہے۔میں تکبر،رعونت،فرعونیت خواہ وہ کسی صورت میں ہو اس لعنت سے ہمیشہ بچتا ہوں۔ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ مجھ سے کسی کی بے جا تذلیل نہ ہو جائے۔کسی کی زیادتی کا بدلہ ضرور لیتا ہوں لیکن اس زیادتی کے برابر،پوری طرح ناپ تول کر۔میرے نزدیک چاہے کسی رنگ ،روپ اور بہروپ میں ہو۔۔ تکبر،رعونت اور فرعونیت سب سے بڑا گناہ ہے ۔ریاکاری والی انکساری بھی ایسا ہی بہروپ ہے جس کے عقب میں تکبر موجود ہوتا ہے۔سو میں ان سب کے ارتکاب سے ہمیشہ بچتا رہا ہوں اور بچنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔لیکن اس گناہِ عظیم سے ہٹ کر جہاں تک بشری کمزوری والے گناہوں کی سزا کی بات ہے تو اگر یہ بشری کمزوری والے گناہوں کی سزا ہے تو بہت کم ہے، بہت ہی کم ہے ۔اتنی کم ہے کہ سزا لگتی ہی نہیں کیونکہ بشری کمزوریوں والے میرے گناہ تو بے شمار ہیں ۔
دسمبر ۲۰۰۹ء گزر گیا تو نئے سال کا استقبال اپنے معمول کے مطابق کیا۔پاکستان سے ہی میرا معمول رہا ہے کہ میں رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ کسی چھوٹے سے کمرے میں بند ہو کر مصلیٰ بچھا لیتا ہوں۔گزرے ہوئے سال کا ایک جائزہ اپنے اندر لیتا ہوں ۔ کہیں استغفار کرتا ہوں تو کہیں شکر گزار بنتا ہوں۔آنے والے سال کے سلسلہ میں اپنی دعائیں بارگاہِ خداوندی میں پیش کرتا ہوں۔سوا بارہ بجے تک یا ساڑھے بارہ بجے تک میں اسی طرح نئے سال کا استقبال کرتا ہوں۔اسے میں اللہ میاں سے اپنی سالانہ ملاقات بھی سمجھتا ہوں۔
۱۹نومبر۲۰۰۹ء کو انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کا جو مرحلہ ملتوی کر دیا گیا تھا وہ گیارہ جنوری ۲۰۱۰ء کو ہونا طے پایا۔گیارہ جنوری کو انجیو گرافی کی گئی لیکن کسی ٹیکنیکل مسئلہ کی وجہ سے انجیو پلاسٹی کو ملتوی کر دیا گیا۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے دو گھنٹے تک زیر نگرانی رکھنے کے بعد گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔انجیو پلاسٹی کے لیے ۲۱جنوری کی تاریخ طے کر دی گئی۔مجھے ایک دن پہلے یعنی ۲۰ جنوری کو ہسپتال میں آکر داخل ہونا تھا۔سو ۲۰ جنوری کو ہسپتال میں داخل ہو گیا۔انٹرنیٹ پر بیٹھا ہوا تھا جب گھر سے روانہ ہوا ،اور وہاں سے سیدھا ہسپتال پہنچا۔ایک کوئے یار سے دوسرے کوئے یار میں آنکلا۔منجھلا بیٹاعثمان مجھے ہسپتال تک پہنچا گیا تھا۔بار بار آنے جانے کی وجہ سے بادزودن ہسپتال کے کارڈیو ڈیپارٹمنٹ میں اب کافی جان پہچان ہو گئی ہے۔ پہلی منزل پر کمرہ نمبر ۹ میں میرا بیڈ تھا۔پہلے نرس آئی اور شوگر،بلڈ پریشروغیرہ چیک کر گئی۔پھر نیپالی ڈاکٹر مایا آئی۔اس نے سر سے معائنہ شروع کیا۔آنکھ،منہ اور گلے کو چیک کرتے ہوئے جب پیٹ تک آئی تو پیٹ کو دباتے ہوئے پوچھنے لگی کوئی تکلیف تو نہیں ہو رہی؟ میں نے کہا صرف گیس کی تکلیف ہے۔ڈاکٹر تھوڑا سا مسکرائی۔پھر پیٹ کے دائیں بائیں جانب سے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے دباتے ہوئے پوچھا درد تو نہیں ہو رہی؟میں نے کہا گدگدی ہو رہی ہے۔وہ ڈاکٹر جو ابھی تک مسکراہٹ میں بھی سنجیدگی ظاہر کر رہی تھی،اب زور سے ہنسنے لگی،گویا میرے حصے کا بھی ہنس دی۔
شام کا کھانا کھانے کے بعدمیں کچھ دیر چہل قدمی کے لیے نکلا۔پھر اپنے کمرے اور وارڈ سے باہرلگی ہوئی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ رات کو گھر والوں سے بات ہوئی۔پھر ایک غزل شروع ہو گئی۔رات گیارہ بجے کے قریب میں اپنے کمرے میں آکر سو گیا۔
۲۱جنوری کو فجر کی نمازسے فارغ ہوا تو ٹیپو آگیا۔میرے استعمال کی چند چیزیں جو گھر پر رہ گئی تھیں دینے آیا تھا۔وہیں سے پھر اپنی جاب پر چلا گیا۔صبح ناشتہ سے پہلے میری شوگر ۱۶۹ تھی۔ناشتہ کے بعد یکدم ۳۶۹ ہو گئی۔اس پر فوراََ انسولین کا ٹیکہ لگایا گیا ۔ٹیکہ لگوا کر میں اپنے کاغذ قلم لے کر لابی میں چلا گیا۔(لیپ ٹاپ کی سہولت ہوتی تو کاغذ قلم کی ضرورت نہ پڑتی)شام کو ساڑھے چار بجے انجیو پلاسٹی کا وقت طے تھا۔اس دوران مبارکہ سے فون پر بات ہوئی۔معلوم ہوا کہ کل رات کو کینیڈا سے پروین شیر نے فون کرکے خیریت دریافت کی تھی۔آج دن میں ارشد خالد اور نذر خلیق کے فون آئے تھے اور دونوں خیریت دریافت کر رہے تھے۔ مبارکہ کے فون کے بعد اپنے اپنے گھر سے سارے بچوں نے بھی فون کرکے خیریت دریافت کی۔
آج ڈاکٹر ویسنا چیک اپ کے لیے آئیں۔ٹمپریچر،نبض،بلڈ پریشر سب نارمل تھے۔بلڈ پریشر۸۰۔۱۴۰تھا۔ڈاکٹر ویسنا بلڈ پریشر چیک کرتے ہوئے بیڈ پر بہت زیادہ جھک آئی تھیں،شاید اسی لیے بلڈ پریشر ۱۲۰ کی بجائے ۱۴۰ ہو گیا تھا۔بہر حال سب کچھ کنٹرول میں تھا۔
شام کو انجیو پلاسٹی بھی ہو گئی۔اپنے کمرے میں آگیااور ٹانگ سیدھی رکھنے والی تکلیف کا مرحلہ بھی نسبتاََ آسانی سے گزر گیا۔۲۲جنوری کو صبح سویرے میرا ای سی جی ٹیسٹ ہوا۔رپورٹ اطمینان بخش تھی۔ اسی روز میں نے دو غزلیں کہیں۔ شام تک مجھے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔
۱۸ فروری کو چیک اپ ہوا۔اس کے بعد ۱۲؍ اپریل کو پھر معائنہ کیا گیا۔یہ معمول کے چیک اپ ہیں۔ہماری بیماریوں کے معاملہ میں ہم سے زیادہ ان لوگوں کو فکر رہتی ہے۔مبارکہ کاہفتہ میں تین بار ڈائلسزکا سلسلہ جاری ہے اور اب ایک طرح سے معمولاتِ زندگی میں شامل ہے۔۱۶،۱۷؍اپریل کی درمیانی رات اسے بے چینی ہونے لگی۔شوگر اور بلڈ پریشرچیک کیے تو سب نارمل تھے البتہ نبض کی رفتار مدھم تھی۔۴۰ سے ۴۳ کے درمیان۔دواڑھائی گھنٹے اپنے ٹوٹکے کرنے میں گزار دئیے۔صبح ساڑھے پانچ بجے بڑے بیٹے کے گھر فون کیا۔تسنیم سے بات ہوئی۔اس نے فوراََقریبی شہر ہوف ہائم کے ہسپتال میں فون کیا۔چھ بجے وہاں کا ڈاکٹر ہمارے گھر پہنچ گیا۔نبض کے بارے میں جان کر اس نے دستی ای سی جی مشین بھی ساتھ رکھ لی تھی۔مبارکہ کی صورتحال دیکھ کر اس نے گھر پر ہی ای سی جی ٹیسٹ شروع کر دیا۔دل میں گڑ بڑ ہونے کے سگنل مل رہے تھے۔ساڑھے چھ بجے اس نے ایمبولینس بلا لی۔ایمبولینس والوں نے آتے ہی اپنی کاروائی شروع کر دی۔وہ اسٹریچر پر ڈال کر لے جانا چاہتے تھے۔ہم اپنی بلڈنگ کی ساتویں منزل پر رہتے ہیں۔میرے پاس ہاؤس ماسٹر کا فون نمبر نہیں تھا۔ہاؤس ماسٹر سے سارے معاملات چھوٹا بیٹا ٹیپو خودڈیل کر لیا کرتا تھا۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ لفٹ کی چابی منگائیں تاکہ مریضہ کو اسٹریچر پر ہی لے جایا جا سکے۔میں نے ٹیپو کے گھر فون کیا،موبائل پر فون کیا،مگر سارے فون بند تھے۔پانچ منٹ کا پیدل رستہ ہے اس دوران میں نے خود جا کر اس کے گھر پر بیل دی اور پیغام دیا کہ فوراََ ہمارے ہاں پہنچو۔ان لوگوں کے پوری طرح بیدار ہونے ،تیار ہونے اور ہمارے ہاں پہنچنے میں اتنا وقت لگ گیا کہ تب تک ڈاکٹرز مزید انتظار کیے بغیر مبارکہ کو وہیل چئیر پر بٹھا کر ہی لے گئے۔تینوں بیٹے ہمارے گھر کے اتنے قریب ہیں کہ کسی ایمر جینسی میں بلانے پر پانچ منٹ کے اندر گھر پر پہنچ سکتے ہیں۔ہر چند آج بڑی بہو تسنیم کو جتنا کام سونپا گیا اس نے احسن طریقے سے کر دیا اور اسی کے نتیجہ میں ڈاکٹر اور ایمبولینس بروقت پہنچ چکے تھے۔لیکن آج ایمر جینسی میں یہ تجربہ بھی ہواکہ سب سے قریب مقیم بیٹا اس وقت ہم تک پہنچا جب اس کے آنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ قدرت کی طرف سے آسانی ہو تو دور والے بھی قریب ہیں اور اگرالجھن پیدا ہونی ہے تو سب سے قریب والے بھی دور ہیں۔سبق ملا کہ بچوں کی سعادت مندی پر ان کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے لیکن بھروسہ صرف اور صرف اپنے خدا پر ہی رکھنا چاہیے۔اس کا فضل ہے تو ہر طرف سے ہر طرح خیر ہے۔
ساڑھے سات بجے ایمبولینس والے مبارکہ کو ساتھ لے کر گئے تھے اور ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ مبارکہ کا فون آگیا کہ انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کے دونوں مرحلے طے ہو گئے ہیں۔گویا اب ہم دونوں میاں بیوی ہارٹ کلب کے ممبر بن گئے ہیں۔ میں نے تومبارکہ کی کسی بیماری میں شراکت نہیں کی لیکن وہ میرے دل کی بیماری میں حصہ دار بن گئی۔اگلے دن اس کے ڈائلسز کی باری تھی۔ ۲۳اپریل کو شام تک ڈائلسز کے بعدمبارکہ کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی۔
۲۴؍اپریل کو ہمارے شہر کے مئیر کی ایک امیدوارمحترمہ کارین کے ساتھ مقامی کمیونٹی سنٹر میں ملاقات طے ہوئی تھی۔ان کا تعلق ایف ڈی پی سے ہے۔جب کمیونٹی سنٹر میں پہنچیں تو بالکل اکیلی۔۔۔مجھے اس لیے حیرانی ہوئی کہ ہمارے ہاں تو یونین کونسل کے امیدوار بھی ڈھول،باجے کے ساتھ آتے ہیں۔یہ تو شہر کی بلدیہ کی مئیر شپ کی امیدوار تھیں اور بالکل اکیلی۔انہوں نے ماضی میں اپنی سماجی سرگرمیوں کی تفصیل سے آگا ہ کیا اور مستقبل کے ارادوں (صرف وعدوں کا نہیں ارادوں )کا ذکر کیا۔ماضی کی سرگرمیوں میں انہوں نے بتایا کہ وہ نوجو ا نو ں کی بہتری کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔میں نے انہیں تجویز دی کہ اس بار آپ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بھی کچھ کام کرنا۔میری تجویز انہوں نے پرزور مسکراہٹ کے ساتھ قبول کر لی۔جاتے ہوئے مجھے اپنا ای میل ایڈریس دے گئیں۔میں نے اسی دن شام کو انہیں ایک ای میل بھیج دی جس میں اپنے تعارف کے طور پر اپنی نظم’’سرسوں کا کھیت‘‘کا جرمن ترجمہ بھی نتھی کر دیا۔ان کی جوابی میل آئی جس میں نظم پر پسندیدگی کا رسمی اظہار تھا۔اگلے دن ۲۵اپریل کو انتخاب تھا۔ہمارے ووٹ پڑنے کے باوجود محترمہ ہار گئیں۔تب میں نے انہی حوصلہ بڑھانے والی ایک میل بھیجی۔اس کا جواب بڑا دلچسپ آیا ۔انہوں نے لکھا کہ ہارنے کے باوجود ہم لوگ پُر عزم ہیں۔ہار کی خبر سننے کے بعد پارٹی کے مقامی رہنما اور کارکن ایک جگہ جمع ہوئے۔وہاں میں نے بطور خاص آپ کی ای میل کا ذکر کیا اور آپ کی نظم ’’سرسوں کا کھیت‘‘پڑھ کر سنائی،جسے حاضرین نے اس خاص کیفیت میں بطور خاص پسند کیا۔
اس سال فروری کے مہینے میں امریکہ سے ستیہ پال آنند کی ای میل آئی کہ میں یورپ کا سفرکرنے والا ہوں۔ان کے ساتھ گزشتہ برس ایک علمی مجادلہ میں ہلکی سی تلخی ہوئی تھی۔میں نے جوابی کاروائی میں ان کی متعلقہ ای میلز شائع کرکے انہیں علمی و اخلاقی دونوں سطح پر خاموش کر دیا تھا۔یہ ساری روداد میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘میں محفوظ ہے۔اس سب کچھ کے باوجود ان کی ای میل آئی تو کچھ اچھا سا لگا۔سو میں نے انہیں لکھا کہ جب یورپ آرہے ہیں تو جرمنی سے بھی ہوتے جائیے۔ڈاکٹر آنند فوراََ راضی ہو گئے۔ مجلسی سرگرمیوں سے تمام تر بے رغبتی کے باوجوداب مجھے ایک تقریب کا اہتمام تو کرنا تھا۔اسی دوران جرمنی کے ایک متشاعر سے بات ہو رہی تھی تو اس نے کہا کہ آپ کو تو تقریبات کرانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے پھر کیسے انتظام کریں گے۔میں نے کہا میں جان بوجھ کر ان سرگرمیوں سے پرہیز کرتا ہوں وگرنہ ان کا برپا کرانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔چنانچہ ۲۴مارچ کو ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈکی زیر صدارت ڈاکٹر آنند کے اعزاز میں تقریب کامیابی کے ساتھ ہو گئی۔تقریب کے بعد ڈاکٹر آنند کوئی رسمی شکریہ کہنا تو کجا،مجھے خداحافظ کہے بغیرروانہ ہو گئے۔اگلے روز انہوں نے ہمبرگ میں کسی خاتون کی شاعری کی ایسی کتاب کی تقریب رونمائی کرنی تھی جو شائع ہی نہیں ہوئی تھی۔۲۳ مارچ کی رات جب ڈاکٹر آنند میرے ہاں مقیم تھے وہ دیر تک اس خاتون کی شاعری کے مسودے پر اصلاح کا نیک فریضہ انجام دیتے رہے تھے۔ میں نے تب ہی انہیں دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اگر وہ کتاب کے بغیر رونمائی کے ڈرامہ میں شریک ہوئے تو وہ ایک ادبی جرم کے مرتکب ہوں گے۔ لیکن انہیں اس تقریب میں شرکت کی جلدی تھی سو ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی تقریب سے فارغ ہوتے ہی ملے بغیر چلے گئے ۔ امریکہ واپس پہنچنے کے بعد بھی ان کی طرف سے کوئی رسمی میل تک نہیں ملی۔شاید یہ ادبی تہذیب کا کوئی مابعد جدید رویہ ہو۔
اسی تقریب کے سلسلہ میں ایک اور لطیفہ در لطیفہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ایک خاتون صدف مرزا کا حوالہ دیا کہ میرے سفر کے جملہ امور کو وہی دیکھیں گی۔ان کا تعارف بطور شاعرہ کرایا گیا۔سو انہیں بھی مدعو کر لیا گیا۔پھر ان خاتون نے پاکستان سے آئے ہوئے ایک شاعرباقر زیدی کا بتایا تو اسے بھی مدعو کر لیا گیا۔تقریب سے پہلے ہی کھل گیا کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی متعارف کرائی گئی خاتون کا جو شعری مجموعہ چھپ چکا ہے بے وزن شاعری پر مشتمل ہے۔اب صبر کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔البتہ اس صبر میں یہ اطمینان شامل کر لیا کہ اس تقریب میں اپنا کلام نہیں سناؤں گا۔ مجھے ویسے بھی مشاعرہ بازی کا شوق نہیں ہے،سو یہ طے کر لیا کہ میں اپنی ہی اس تقریب میں کلام نہیں سناؤں گا۔ پروگرام سے چند دن پہلے معلوم ہوا کہ پاکستان سے جو شاعر آئے ہوئے ہیں وہ کسی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور پروگرام کی ریکارڈنگ بھی کی جائے گی۔مجھ سے دو دوستوں نے پوچھا: اب تو ٹی وی چینل کی طرف سے ریکارڈنگ بھی ہو گی، تو اب تو کلام سنائیں گے؟میں نے کہا کہ میرے لیے بے معنی بات ہے۔چنانچہ تقریب ہوئی ریکارڈنگ دھوم دھام سے ہوئی لیکن اسٹیج سیکریٹری ہونے کے باوجود میں نے کلام نہیں سنایا ۔بعد میں لطیفہ یہ ہو ا کہ مجھے مذکورہ پاکستانی شاعر کی طرف سے پیغام بھیجا گیا کہ اس تقریب کی ریکارڈنگ کی ڈی وی ڈی کی ماسٹر کاپی لینا چاہیں تو سات سو یورو کا خرچہ دینا ہوگا۔میں نے پیغام پہنچانے والے دوست کو جواب دیا کہ پاکستانی دوست کی جیب کٹ گئی ہو اور اسے کرایا کے لیے ہیلپ کی ضرورت ہو تو کوئی مدد کی جا سکتی ہے لیکن اس ڈی وی ڈی کے لیے میں سات یورو دینے کے لیے بھی راضی نہیں ہوں۔جس ریکارڈنگ کے لیے میں نے کلام سنانے میں بھی دلچسپی نہیں لی مجھے اس کی ڈی وی ڈی میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔وہ دوست سات سو سے کم کا بھاؤ تاؤ کرنے لگے تو میں نے انہیں کہا کہ میں سات یورودینے سے بھی انکار کر چکا ہوں تو آپ کیا بھاؤ تاؤ کررہے ہیں۔
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے!
اسی دوران بون میں بشریٰ ملک نے ایک ادبی تنظیم اردو سوسائٹی آف یورپ قائم کی اور ۱۶ مئی کو وہاں ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا۔اس کی صدارت مجھ سے کرائی گئی۔میں نے بعد میں بشریٰ ملک کو مشورہ دیا کہ الم غلم قسم کے شاعر اور شاعرات کا مجمع لگانے سے بہتر ہے کہ کوئی سلیقے کی ادبی تقریب کی جائے۔انہوں نے اس سلسلے میں مشورہ مانگا تومیں نے کہا کہ فضول شاعروں اور متشاعروں کی بجائے ایک دو اچھے شاعر بلائیں،ایک افسانہ نگار بلائیں،ایک خاکہ نگار۔۔۔اس طرح چار پانچ ادبی اصناف کے مختلف افراد کو بلا کر ان سب سے باری باری سنا جائے۔پھر ان ساری پڑھی گئی تخلیقات پر گفتگو کی جائے۔حاضرین کو مجمع میں بیٹھ کر نہیں بلکہ اسٹیج پر بلا کر اظہار خیال کی دعوت دی جائے۔اس طرح حاضرین براہ راست اس پروگرام میں شریک ہو سکیں گے۔میری تجویز بشریٰ ملک کو اچھی لگی اور انہوں نے ۳؍جولائی کو اس انداز کی تقریب کا اہتمام کر لیا۔اس کاایک فائدہ یہ ہوا کہ متشاعروں اورفضول قسم کے مشاعرہ بازوں سے نجات مل گئی۔
اس عرصہ میں اٹلی میں مقیم پاکستانی دوست جیم فے غوری جو میرے لیے ادبی محبت اور اخلاص کے جذبات رکھتے ہیں،انہوں نے مجھ سے رابطہ کیااور بتایا کہ وہ اٹلی میں تین روزہ سیمینار کرنا چاہتے ہیں۔موضوع ہے’’مغربی دنیا میں اردو کی صورتحال‘‘۔۲۱ تا ۲۳ جولائی کو سیمینار ہوگا۔۲۴ جولائی کو سوئٹزرلینڈ لے جائے جائیں گے،وہاں شام کو ایک مشاعرہ ہو گا اور وہاں کی سیر بھی ہو گی۔۲۶ تا ۲۸ جولائی اٹلی کی سیر ہو گی۔گویا آٹھ دن کا ادبی و تفریحی پروگرام ہو گا۔میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اس تقریب میں روایتی مشاعرہ باز اور کانفرنس باز ادیبوں کو بالکل نہیں بلائیں۔ان جینوئن لوگوں کو بلائیں جو مشاعروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے لیے منتظمین کے پیچھے پاگلوں کی طرح نہیں بھاگتے۔ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے بڑی حد تک میرے مشورے کو قبول کیا۔پھر انہوں نے جو پروگرام بنایااس میں ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریباََ ہر نشست کی صدارت پر مجھے بٹھا دیا۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ یہ مناسب نہ ہوگا،ویسے بھی پاکستان میں آج کل صدرِ مملکت کے ساتھ مختلف ادارے اور پارٹیاں مل کر جو کچھ کر رہی ہیں اس کے بعد تو لفظ صدر سے ہی وحشت ہونے لگتی ہے۔چنانچہ پھر میں نے اوکھے سوکھے ہو کر دو نشستوں کی صدارت قبول کی اور باقی کے لیے خود سے زیادہ بہتر اور موزوں افراد کے نام دے دئیے۔یہ بہت عمدہ پروگرام ہے۔ادبی کامیابی کے ساتھ مہمانوں کے سیر سپاٹے اور کھانے پینے کا بھی عمدہ انتظام کیا جارہا ہے۔کھانے پینے میں پاکستانی کھانوں کو ترجیح دی گئی ہے لیکن ہلکے پھلکے اٹالین کھانے بھی پیش کیے جائیں گے۔
کھانے پینے کے ذکر سے خیال آیا،جرمنی میں رہتے ہوئے ہم لوگ پاکستانی کھانے ہی کھاتے رہے ہیں۔لیکن اب کھانے کے معمولات میں کچھ تبدیلی کی ہے۔ناشتہ میں ہم میاں بیوی اپنی اپنی پسند کی بریڈ لیتے ہیں۔دوپہر کو پاکستانی کھانا ہوتا ہے۔مبارکہ شام کو بھی پاکستانی کھانا کھاتی ہے لیکن میں نے شام کو بھی بریڈ لینا شروع کر دی ہے۔ویسے پاکستانی کھانوں میں عام گوشت،سبزی اور دال کے ساتھ ساتھ کبھی کبھارچپلی کباب، نہاری اور پائے کی بد پرہیزی بھی کر لیتے ہیں ۔ویسے آجکل ہماری پسندیدہ ڈش گڑ کے چاول ہے،اگرچہ یہ بچپن کی پسندیدہ ڈش کے طور پر بہت کچھ یاد دلاتی ہے لیکن اس میں ہر طرح کے میوہ جات کی شمولیت بہت کچھ بھلا بھی دیتی ہے۔کبھی کبھار یہ ڈش بنتی ہے تو میں جی بھر کے بد پرہیزی کر لیتا ہوں۔ شوگر کا مریض ہونے کی وجہ سے عام طور پر تشویش تب ہوتی ہے جب شوگر معمول سے بڑھ جاتی ہے۔تاہم حالیہ دنوں میں وقفہ وقفہ سے تین بار ایسا ہو چکا ہے کہ میری شوگر بہت کم ہو گئی۔۵۰ کے لگ بھگ۔پہلی بار تب اس کا انکشاف ہوا جب میں وضوکر رہا تھا اور ٹانگیں کپکپانے لگیں۔ شوگر چیک کی تو پچاس۔فوراََ احتیاطی تدابیر بروئے کار لائے اور شوگر لیول نارمل ہو گیا۔جب وقفہ وقفہ سے تین بار ایسا ہوا تو ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ڈاکٹر فکر مند ہوا اور کہنے لگا اس میں خطرہ زیادہ ہے، خصوصاََ نیند میں ہی شوگر لیول اتنا گر جائے تو بندہ سویا ہوا ہی آگے نکل جائے گا۔اس کے لیے خود ہی الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔لیکن مجھے تو اس مسئلہ میں بھی ایک دلکشی دکھائی دی ہے۔موت برحق ہے ۔ایک نہ ایک دن آنی ہے اور میں اس سلسلہ میں اپنی خواہش پہلے سے لکھ چکا ہوں۔
’’مجھے موت کے سلسلہ میں صرف ایک خواہش شدت کے ساتھ رہی ہے کہ جب بھی آئے بہت آرام سے آئے۔جیسے ہلکی سی اونگھ میں گہری اور میٹھی اونگھ آجائے اور میں اسی میٹھی اونگھ میں آگے نکل جاؤں۔‘‘
تو اس لحاظ سے نیند میں شوگر لیول کا بہت زیادہ کم ہو جانااس خواہش کی تکمیل کے لیے ممد ہو سکتا ہے لیکن صرف تب جب خدا کی طرف سے بلاوے کا اصل وقت آئے گا۔اس برس پاکستان سے محمد حامد سراج کی اوپن ہارٹ سرجری کے بعد ایک ای میل آئی تو اس میں موت کے خوف کا احساس نمایاں تھا۔میں نے انہیں اپنی یادوں کے گزشتہ باب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہمت افزا ای میل بھیجی جس کا پھر اچھا جواب آیا۔
بے شک انجیو پلاسٹی کے مقابلہ میں اوپن ہارٹ سرجری زیادہ نازک معاملہ ہے لیکن کامیاب آپریشن کے بعد بندہ جیسے جوان ہو جاتا ہے۔میرا خود اپنے ہسپتال کے ڈاکٹر کے ساتھ یہی مسئلہ چل رہا ہے۔وہ اگلی بار ایک اور انجیو پلاسٹی کرنا چاہتے ہیں۔اور میرا اصرار ہے کہ اب مزید ایسا کچھ نہیں کریں۔اوپن سرجری کر گزریں جو ہونا ہے ہو جائے۔عنقریب اس بارے میں فیصلہ ہونا ہے۔
۱۲مئی کو مجھے ہالینڈ سے ایک دوست احسان سہگل کا ٹیلی فون آگیا۔کافی پریشان تھے اور بتا رہے تھے کہ ان کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے ایمبولینس بلانا پڑ گئی۔چیک اپ ہوا تو تمام رزلٹ اطمینان بخش تھے لیکن احسان سہگل پھر بھی گھبرائے ہوئے تھے۔میں نے انہیں تو تسلی دینے والی باتیں کر دیں لیکن پھرگزشتہ برس اور اس برس کی اب تک کی اپنی صورتحال پر غور کیاتو خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے نہ صرف ہمت اور حوصلہ عطا کر رکھا ہے بلکہ پوری طرح سے خود سنبھال رکھا ہے۔مبارکہ کی جسمانی حالت تو کانچ کی گڑیا جیسی ہو کر رہ گئی۔اس کے باوجود روئے ما،گردوں کے مسئلہ اور دل کی بیماری کو یوں نبھا رہی ہے جیسے گھر کا معمول کا کام ہو۔ڈائلسز سے آنے کے بعد انسان اچھا خاصا نڈھال ہوجاتا ہے۔لیکن مبارکہ پانچ دس منٹ ریسٹ کرنے کے بعد دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگ جاتی ہے۔البتہ کھانا کھانے کے بعد پھر گہری نیند سوتی ہے۔
۲۴ مئی کو جرمنی میں سرکاری چھٹی تھی ۔ اس دن بارش نہیں ہونا تھی ۔کئی دنوں سے چل رہی ٹھنڈ کے بر عکس موسم خاصا بہتر تھا۔چمکتی ہوئی لیکن نرم دھوپ میں ۲۵ ٹمپریچرنے فضا کو خوشگوار بنا دیا تھا(اس دن پاکستان کے بعض شہروں میں ٹمپریچر۵۲ ہو گیا تھا)۔ہم نے ،پوری کی پوری فیملی نے اپنے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے دریائے مائن کے کنارے پکنک منانے کا طے کر لیا۔اپنی اپنی سہولت کے مطابق پانچوں بچوں نے جو پکانا مناسب سمجھا پکا کر لے آئے اور سب دریا کے کنارے پر جمع ہو گئے۔چھوٹے بچے،پوتے،پوتیاں،نواسے جو ہمارے گھر میں کھیلتے ہیں تو لگتا ہے کہ اودھم مچا رہے ہیں۔اب یہاں کھل کر کھیل رہے تھے،اودھم مچا رہے تھے لیکن سب اچھا لگ رہا تھا۔گزشتہ برس کی بیماریوں کی یلغار کے بعد مبارکہ پہلی بار دریا کے کنارے پہنچی تو یہ سب کچھ خواب جیسا لگ رہا تھا۔بیماریوں کے حملہ سے پہلے ہم دونوں میاں بیوی کئی بار چہل قدمی کرتے ہوئے دریا کے اس کنارے تک آئے ہیں اور کئی بار یہاں کے بنچوں پر دیر تک بیٹھے قدرتی مناظر کا نظارہ کرتے رہے ہیں۔لیکن گزشتہ برس ۲۰۰۹ء میں ہم جس نوعیت کی سنگین بیماریوں سے گزرے ہیں،اس کے بعد سوچا نہیں تھا کہ مبارکہ اس طرح پھر سے ہنستے کھیلتے ہوئے دریا کے کنارے تک پہنچے گی۔لیکن خدا کے فضل سے ایسا ہو گیا تھا۔ہمارے لیے یہ پکنک بھی خدا کی شکرگزاری کا جواز بن گئی۔دریا کے دوسرے کنارے پر بھی پکنک منائی جا سکتی تھی لیکن بچے اسی طرف رہنے پر مصر تھے کیونکہ یہاں کی گراؤنڈ وسیع تھی۔کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے کے لیے کھلی جگہ تھی۔دوسری طرف صرف بیٹھنے کے لیے دو تین بنچوں کا ہی انتظام تھا۔چھٹی والے دنوں میں دریا کے دوسرے کنارے پر لے جانے کے لیے ایک کشتی موجود ہوتی ہے۔ کرایا واجبی سا ہوتا ہے۔میں اپنے پوتوں،پوتیوں اور نواسوں کو لے کردریا کے دوسرے کنارے پر لے گیا۔بچوں نے اس مختصر سے دریائی سفر کا لطف لیا لیکن دوسرے کنارے پر پہنچ کر واپسی کا شور مچا دیا۔اصل میں وہ کشتی میں ہی سفر کرتے رہنا چاہتے تھے۔مجھے ہرمن ہیسے کاناول’’ سدھارتھ‘‘ بہت پسند ہے۔ دریا کی آوازیں سننا اوران کا گیان حاصل کرنا بڑی بات تھی لیکن ہرمن ہیسے کے سدھارتھ نے میرے پوتوں ،پوتیوں اور نواسوں کی معصوم اورزندگی سے بھرپورآوازوں کے ساتھ دریا کی آواز کو سنا ہوتا تو اسے ایک اور طرح کا گیان بھی نصیب ہوجاتا۔میں اپنے بچوں کے بچوں میں اپنے ماضی،حال اور مستقبل سمیت اپنی ساری کائنات کا عکس دیکھ رہا ہوں اور وزیرآغا کی نظم’’ آدھی صدی کے بعد‘‘ کا اختتامی حصہ جیسے میرے اس تجربے کا حصہ بن جاتا ہے۔
’’ معاََ؍مَیں نے دیکھا؍زمیں پر ہَوا تھی؍ہَوا کے تڑختے ہوئے فاصلے تھے؍مگر سبز دھرتی کی؍ٹھنڈی تہوں میں؍جڑوں کی پُر اسرار وحدت تھی؍سب فاصلے؍ایک نقطے میں سمٹے ہوئے تھے؍ہزاروں جڑیں؍ایک ہی جڑ سے پھُوٹی تھیں؍آگے بڑھی تھیں؍مگر جڑ سے ایسی جُڑی تھیں؍کہ چلنے کے عالم میں؍ٹھہری ہوئی تھیں؍یہ ساری جڑیں؍سبز دھرتی کی اپنی جڑیں تھیں؍جو خود اُس کے گیلے بدن میں؍اُترتی گئی تھیں؍کہو کون تھا وُہ؟؍کہ جس نے کہا تھا:؍ستارے فقط پات ہیں؍کہکشائیں؍گندھی نرم شاخیں ہیں؍آکاش؍اِک سبز چھتنار؍ہر شے پہ سایہ کُناں ہے؍مگر اس کی جڑ؍اس کے اپنے بدن میں؍نہیں ہے!؍ کہو کون تھا وہ؍کہ جس نے ہَوا کی حسیں سرسراہٹ؍لرزتی ہوئی گھنٹیوں کی سہانی صدا؍مشکی گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز؍اور خواہشوں کے تلاطم کو؍دکھ کا سبب کہہ دیا تھا؟؍وہ جس نے؍خود اپنے ہی پانچوں حواسوں کو؍اپنی جڑوں کو؍فریبی ، سیہ کار، جھوٹا کہا تھا؟
مرا اُس سے؍کوئی تعارف نہیں ہے؍مجھے تو فقط؍اپنے ’’ ہونے ‘‘ کا عرفان ہے؍میں تو بس اس قدر جانتا ہوں؍پَروں کو ہلاتی؍حسیں قوس بن کر؍مِری سمت آتی ہوئی؍فاختہ؍پھڑ پھڑاتے ستارے؍گھنی کھاس کی نوک پر آسماں؍سے اُترتی نمی؍اور پُورب کے ماتھے پہ؍قشقے کا مدھم نشاں؍تیرگی کی گُپھا سے نکلتا ہُوا؍روشنی کا جہاں؍دھرتیاں، کہکشائیں، جھروکے؍جھروکوں میں اطلس سے کومل بدن؍بھیگی پلکوں پہ دکھ کی تپکتی چُبھن ؍سبز شبدوں کی بہتی ہوئی آبجُو؍اِ ک انوکھے پُر اسرار معنیٰ کے؍گھاؤ سے رِستا لہو؍مُسکراتے ہوئے لب؍یہ سب؍میرے اوتار ہیں؍میری آنکھیں ہیں؍مُجھ کو ہمیشہ سے تکتی رہی ہیں؍سدا مجھ کو تکتی رہیں گی!‘‘
زندگی کا اسرارروح سے منسلک ہے اور روح کا بھید روحِ اعظم تک لے جاتا ہے۔میں ایک عرصہ سے اس بھید کو سمجھنے کی جستجو میں ہوں۔کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنا تو ممکن نہیں لیکن پھر بھی غور و فکر کے نتیجہ میں جتنا کچھ بھی منکشف ہوتا ہے میرے لیے روحانی لذت کا موجب بنتا ہے۔میں اپنی یادوں کے باب ’’روح اور جسم‘‘میں لکھ چکا ہوں کہ روح اور جسم لازم و ملزوم ہیں۔کلوننگ کے سائنسی تجربہ کی کامیابی کے بعد یہ مذہبی تصورمزید مستحکم ہوا ہے۔تاہم مجھے جسم اور روح کے اس تعلق کے ساتھ روح کے جسم سے سوا ہونے کا ہلکا سا احساس بھی ہوتا ہے۔میں اس احساس کو شاید ڈھنگ سے بیان نہ کر پاؤں۔تاہم اس کے لیے ایک دو مثالیں کسی حد تک تفہیم میں ممد ہو سکتی ہیں۔خواب میں جسم اپنے بستر پڑا ہوتا ہے اور روح ایک اور جسم کے ساتھ کہاں سے کہاں تک پہنچی ہوتی ہے۔خواب میں ہم جن کیفیات سے گزر رہے ہوتے ہیں بیداری پر ان کے اثرات بھی ہم پر کسی نہ کسی حد تک طاری ہوتے ہیں۔مثلاََ اگر ہم خواب میں دوڑ رہے تھے تو بیداری پر سانس پھولی ہوئی ہوتی ہے۔اگر کوئی ڈراؤنایا بہت سہانا خواب تھاتو بیداری پر اس کے ڈراؤنے یا سہانے اثرات بھی ہم پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک اور مثال بھی معین طور پر تو تفہیم نہیں کرتی لیکن اس سے بھی کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔خوشبو پھول کے اندر موجود ہوتی ہے لیکن پھر وہ پھول سے الگ ہو جاتی ہے اور پھول مرجھا جاتا ہے۔کسی بزرگ کی تحریر میں پڑھا تھا کہ قیامت کے دن ہمیں نئے جسم دئیے جائیں گے۔میں پرانے جسم کی اہمیت سے ابھی تک منکر نہیں ہو پارہا۔یوں تو ہمارے جسم کی کھال چند معین برسوں کے اندر غیر محسوس طور پر تبدیل ہوجاتی ہے۔صاحبِ جسم کو بھی اس تبدیلی کا ادراک نہیں رہتا۔ہم خود کو وہی کا وہی سمجھتے ہیں۔سو قیامت کے دن اگر ہمیں اسی انداز میں کوئی نیا جسم عطا کیا جاتا ہے جس سے ہم سب اپنا آپ اسی طرح اپنا محسوس کریں توپھر اس سے ان بزرگ کی بات بھی بجا رہتی ہے اور نئے،پرانے جسم کا مسئلہ بھی کسی حد تک قابلِ فہم ہو جاتا ہے۔
پاکستان اورانڈیاکے کئی چینلز جرمنی میں آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ایسے ہی چینلز میں ایک کا نامNDTV ہے۔گزشتہ برس اس چینل پر ایک رئلیٹی شو’’راز پچھلے جنم کا‘‘کے نام سے دکھایا گیا۔چند محدود قسطوں کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔میرے گھر والے اس شو میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے کہ شاید انہیں یہ اپنے معتقدات کے خلاف لگتا تھا۔میرے پیش نظردو باتیں تھیں۔ایک تو یہ کہ میں ایک طویل عرصے سے کبھی ایسا محسوس کیا کرتا ہوں کہ میں جیسے کسی پچھلے جنم میں بادشاہ؍راجہ یا سردار قسم کی چیز تھااور کبھی ایسے لگتا ہے کہ میں کوئی سادھو، سنت،فقیریا ملنگ تھا۔میں اس بات کو اپنی بیوی کے علاوہ بعض بچوں کے ساتھ بھی کر چکا ہوں۔یہ دو مختلف دھاروں کا احساس پاکستان میں قیام کے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔اس لیے پچھلے جنم کا اسرار میرے لیے ذاتی دلچسپی کا موجب تھا۔دوسری بات یہ کہ مجھے روح کے بھید کو سمجھنے کی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے۔ یہ گیان اور معرفت مجھے کہیں سے بھی ملنے کی امید ہو میں ممکنہ حد تک وہاں پہنچنے کی کوشش کرتاہوں۔یہ شو تو گھر بیٹھے ہی دستیاب ہو رہا تھا۔اس میں ایک ماہرِ نفسیات خاتون ایک خصوصی نوعیت کے بیڈ کے ساتھ براجمان ہوتی تھیں۔وہاں اپنے پچھلے جنم کی یاترا پر جانے کے خواہشمند کو لٹا کر پچھلے جنم کا کچھ حصہ دکھایا جاتا تھا۔میرا اپنا اندازہ یہ تھا کہ مسمریزم سے ملتے جلتے کسی نفسیاتی طریقے سے مریض کو ٹرانس میں لا کرپھر کسی جینیٹک وے سے یا صدیوں سے محفوظ لاشعور کے ذریعے ہمارے آباؤ اجداد کے کسی کردار کی فلم کے ذریعے سے نفسیاتی علاج کر دیا جاتا ہے۔
اس شو میں آنے والے بعض لوگ اپنے پچھلے جنم کی کئی انوکھی داستانیں سنا رہے تھے۔میں ان سب کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ تو سائنس کی ایک سادہ سی درسی نوعیت کی عام سی بات ہے کہ ہر انسانی سیل کے نیوکلس میں ۴۶کروموزوم ہوتے ہیں۔۲۳ ماں کی طرف سے اور ۲۳ باپ کی طرف سے۔کروموزوم کے اندر ایک کیمیائی مادہ ہوتا ہے جسےDNA کہتے ہیں۔اس DNA کے مالیکیول (سالمے) کے مخصوص حصوں کو جین کہتے ہیں۔سیل کے ہر فعل کو کنٹرول کرنے والی ایک مخصوص جین ہوتی ہے۔انسانی جسم کے اربوں سیل میں سے ہر ایک سیل کے ۴۶ کروموزوموں کو ملا کرکروڑوں کی تعداد میں جینز ہوتی ہیں۔ایک سیل جس کے اندر یہ کروڑوں کی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں،اس کی مادی حیثیت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ سوئی کی نوک پر ۲۰ہزار سیل سما جاتے ہیں۔(یہاں مجھے ایک غیر متعلق بات یاد آگئی۔بغداد پر ہلاکو خان کے حملہ کے وقت علماء کے دو گروہوں میں اس مسئلہ پر مناظرہ ہورہا تھا کہ ستر ہزار فرشتے سوئی کے ناکے میں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟۔سوئی کی نوک پرمادی صورت کے حامل ۲۰ ہزار سیل سما سکتے ہیں جبکہ ہر سیل کے اندر کروڑوں جینز موجود ہیں، تو ناکے میں سے ستر ہزار فرشتوں کا گزرنا تو معمولی سی بات لگتا ہے)۔
سیل کی کاکردگی کی اس تفصیل کے بیان سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ ہمارے اندر ہمارے آباؤ اجدادکی عادات و افعال کا کتنا بڑا حصہ موجود ہے۔ان کے ذریعے ہمارے نانہال،ددھیال کے اعمال وعادات کا بہت سارا حصہ ہم میں منتقل ہوجاتا ہے۔اپنے آپ کو کبھی کوئی مہاراجہ یا سرداراور کبھی کوئی ملنگ فقیر محسوس کرنا مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میرے ددھیال،نا نہال میں سے کوئی ایسے رہے ہوں گے اور انہیں کی وہ بادشاہی اورفقیری میرے اندر بھی سرایت کرکے کسی نہ کسی رنگ میں میرے مزاج کا حصہ بنی ہوئی ہے۔
این ڈی ٹی وی پرپچھلے جنم کا جو سفر میں دیکھ رہا تھا مجھے لگا کہ وہ اصل میں ان کے کروموزوم میں محفوظ آباؤ اجداد کے کسی کردار کی زندگی کی کوئی پرچھائیں جیسی جھلک تھی۔یہ میں ان افراد کے بارے میں لکھ رہا ہوں جن کی داستانوں میں کہیں کوئی ربط تھا۔لیکن کئی باتیں بے ربط یا بے جوڑ بھی محسوس ہوئیں۔مثلاََ کسی کو شدید گھٹن کا احساس ہوتا ہے تو اس کے پچھلے جنم میں اسے کسی صندوق میں بند کر کے ڈبو دیا گیا تھا۔پچھلے جنم میں ظلم ہوا تھا تو اب تو اس کے بدلہ میں من میں شانتی اور کھلے پن کا احساس ہونا چاہیے تھا۔اگر وہی گھٹن کا احساس ابھی تک موجود ہے تو پھر نیا جنم پچھلے جنم کا اجر نہیں بنتا بلکہ اسی سزا کا تسلسل لگتا ہے جس کے نتیجہ میں پچھلا جنم انجام کو پہنچا۔تاہم میرا مقصد یہاں ہر گز ہرگز کسی کے عقائد پر اعتراض کرنا نہیں ہے بس اس پروگرام کو دیکھتے وقت روح کی کھوج کی میری لگن جو کچھ سجھاتی رہی وہ بیان کر رہا ہوں۔بعض پروگراموں میں جو کچھ دکھایا گیا انہیں کے اندر پچھلے جنم کی داستان کی تردیدہو گئی۔مثلاََ ایک لڑکی کے پچھلے جنم میں اس کی ساس نے اسے زندہ جلا دیا تھا۔وہ اپنے پچھلے جنم کے گھر کے علاقہ اور ہاؤس نمبرسے لے کر اسکول کے نام پتہ تک کی ساری تفصیل بیان کرتی ہے ۔لڑکی کا پچھلا جنم بھی دہلی میں ہوا اور موجودہ جنم بھی دہلی میں ہوا۔لیکن جب پچھلے جنم کے مقامات کی تصدیق کرنے گئے تو کوئی بھی درست ثابت نہ ہوا۔اسی طرح انڈیا میں پنجابی فلموں کی ایک اداکارہ پچھلے جنم میںیاسمین خان تھی،سلطان نامی مسلمان سے محبت کرتی تھی۔رنجیت سنگھ کے مزار پر جھاڑو دیا کرتی تھی۔۱۹۴۷ء میں اسے مسلمانوں نے قتل کر دیا۔کسی مسلمان کو کسی ہندو یا سکھ کے ہاتھوں قتل ہوتا بتایا جاتا تو قابلِ فہم بات ہوتی یا پھر لڑکی ہندو یا سکھ ہوتی اور پھر مسلمانوں کے ہاتھوں ماری جاتی تو پچھلے جنم کا راز سمجھ میں بھی آتا۔ اس طرح کے کئی بے جوڑ نتائج پر مبنی پروگرام ماہرِ نفسیات خاتون کی تشخیص کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔
ہندو عقائدکے حوالے سے روح کے اسرار کی باتیں ہو رہی ہیں تو مجھے ان میں ایک بڑا انوکھا اور دلچسپ تصور بھی ملا ہے۔ہستئ باری تعالیٰ جو اس کائنات کی حقیقتِ عظمیٰ بھی ہے اور روحِ اعظم بھی،اصلاََ ہم اس عظیم ترین ہستی کو بھی اپنے معاشرتی رویوں کے حوالے سے دیکھتے یا سمجھتے ہیں۔جبکہ وہ ہمارے سارے تصورات اور قیاسات سے بالا ہے۔چونکہ ہمارا معاشرہ مردانہ بالادستی کا معاشرہ ہے اسی لیے خدا کے بارے میں بھی عام طور پر مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ہمارے بر عکس قدیم ہندوستان کے مادری نظام کے اثرات کے نتیجہ میں ہندوؤں میں دیوتاؤں کے ساتھ دیویوں کا تصور بھی موجود رہا ہے۔
شری دیوی بھگوت پُران میں خالقِ کائنات عورت کے روپ میں ہے۔ اس عقیدہ کے مطابق خالقِ کائنات شری دیوی اپنی تنہائی اور شدتِ جذبات سے مضطرب ہوئی تو اس نے اپنی ہتھیلیوں کو رگڑا۔اس کے نتیجہ میں ہاتھوں پر آبلے پڑ گئے،جو پھوٹ بہے تو پانی کا ایک سیلاب آگیا۔اس پانی سے برہما کی پیدائش ہوئی۔شری دیوی نے برہما سے جنسی ملن کی خواہش کا اظہار کیامگر برہما نے اسے اپنی پیدا کرنے والی کہہ کر اس عمل سے انکار کر دیا۔تب شری دیوی نے برہما کو فنا کر دیا۔ان کے بعد وشنو کو پیدا کیا گیا اور اس سے بھی وہی خواہش دہرائی گئی،وشنو نے بھی برہما کی طرح انکار کیا اور ان کو بھی برہماجیسے انجام سے دوچار ہونا پڑا۔
وشنو کے بعد شنکر کا جنم ہوا۔شنکر اِن معاملات میں کافی معاملہ فہم نکلے۔انہوں نے دو شرطوں کے ساتھ شری دیوی کی بات ماننے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ ایک شرط یہ کہ برہما اور وشنو کو دوبارہ پیدا کریں اور ان کے لیے دو عورتیں بھی پیدا کی جائیں۔دوسری شرط یہ کہ شری دیوی خود دوسرا روپ اختیار کریں کیونکہ اس روپ میں بہر حال وہ ماں کا مرتبہ رکھتی ہیں۔چنانچہ شری دیوی نے برہما اور وشنو کو ان کے جوڑوں کے ساتھ دوبارہ خلق کیا اور خود بھی پاروتی کا دوسرا روپ اختیار کیا۔شنکر اور پاروتی کی داستان ہندؤں کے عقائد میں آج بھی کئی جہات سے اہمیت کی حامل ہیں۔ہمارے پدری بالا دستی والے معاشروں میں خدا مردانہ صفات کا حامل دکھائی دیتا ہے تو مادری نظام کے قدیم ہندوستان میں خداکے عورت جیسے روپ کی بات دلچسپ ہونے کے ساتھ اپنے ثقافتی پس منظر میں قابلِ فہم بھی لگتی ہے۔باقی خالقِ حقیقی تو ہمارے ہر مردانہ و زنانہ تصور سے کہیں بلند و بالا ہے۔ یہاں تک کہ صفات بھی اس کو سمجھنے اور اس تک رسائی کا ایک وسیلہ تو ہیں لیکن اس عظیم تر حقیقت کے سامنے صفات بھی بہت نیچے رہ جاتی ہیں۔صفات کا معاملہ یوں ہے کہ ذاتِ احد ہونے کے باوجود ہم صفات کے وسیلے سے اسے مخاطب کرتے ہیں۔مثلاََ’’ اے میرے رحیم خدا ! مجھ پر رحم فرما‘‘کہیں گے۔رحیم خدا کی بجائے قہار خدا کہہ کر رحم نہیں مانگیں گے۔اسی طرح رزق مانگتے وقت رزاق خدا کہیں گے،جبار خدا نہیں گے۔علیٰ ھذالقیاس۔اب میرے سوچنے کا معاملہ یوں ہو جاتا ہے کہ بُت سامنے رکھا ہو یا ذہن میں بنایا ہوا ہو،اسے بُت ہی کہیں گے۔کہیں صفاتِ باری تعالیٰ کے معاملہ میں ہم بھی ذہن میں چھپائی ہوئی بت پرستی کا ارتکاب تو نہیں کر رہے؟
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے   ہے   حکمِ  اذاں    لا الٰہ الا اللہ
میرا خیال ہے اپنے آپ کو سمجھنے میں اور خالقِ کائنات کو سمجھنے میں شاید میں کچھ بھٹکنے سا لگا ہوں اس لیے جوگندر پال کے ایک افسانہ ’’سانس سمندر‘‘کے خوبصورت اقتباس کو خود پر منطبق کرتے ہوئے، اپنی اس روداد کو سمیٹتا ہوں۔مزید کچھ لکھنے کی گنجائش نہیں رہی۔
’’وہ پکی قبر؟۔۔۔وہ ایک مجذوب کے قبضے میں ہے۔بے چارہ اپنی اس کھوج میں دنیاسے باہر نکل گیا کہ پیدا ہونے سے پہلے میں کیا تھا۔ارے بھائی تم ہو ہی کیا، جو کچھ ہوتے؟وہ تو شکر کرو کہ تمہارے باپ نے تمہاری ماں کو چوم چاٹ کر تمہیں بنا دیا ۔مگر باؤ لا اپنی چھوٹی سی سمجھ بوجھ کونہ چھوڑے ہوتا تو اتنی بڑی دنیا کیوں چھوڑتا۔ تل گیا کہ اپنی تلاش میں وہیں جانا ہے جہاں سے آیا ہوں۔عین وہیں پہنچاہوا ہے اور اپنی قبر کی پکی دیواروں کے اندر ہی اندر کچی مٹی ہو چکا ہے۔
ذرے کو جان کیا ملی کہ پاگل نے مٹی سے کھیلنے سے انکار کر دیا مگر مٹی تو اپنے ذرے ذرے سے کھیلتی ہے۔‘‘
یہاں تک آتے آتے مجھے ایسا لگا ہے جیسے آج میرے اندر کے بادشاہ اور ملنگ میں لڑائی ہو گئی ہے۔پتہ نہیں دونوں میں سے کون جیتا ہے بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ بادشاہ جیت گیا ہے اور فقیر کو قبر میں ڈال دیا گیا ہے۔لیکن فقیر کی تو قبر بھی زندہ رہتی ہے اور سانس لیتی ہے۔
اب میں نہ خود سے مزید مکالمہ کر سکتا ہوں نہ اپنے قارئین سے مزید گفتگو کی گنجائش ہے،بس خدا سے ایک سوال ہے۔
خداوندا!  یہ  تیرے سادہ دل  بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے،سلطانی بھی عیاری
لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنی کہانی کا درویش بھی میں ہوں،سلطان بھی میں ہوں ،
اورخدا کا سادہ دل بندہ بھی میں ہی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen