Freitag, 15. Juli 2011

علّتیں‘علالتیں

علّتیں‘علالتیں

ہر انسان میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔مجھ میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں۔کسی زمانے میں غصہ جلد آجاتا تھا لیکن میری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ میں اپنے دوستوں پر بہت جلد اعتبار کرلیتا ہوں۔میں خود اپنے دوستوں کے تئیں جتنا مخلص ہوتا ہوں ‘ان کے بارے میں بھی ویسا ہی تصوّر کرلیتا ہوں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب دوست میرے تصور سے کم ‘بلکہ بہت کم نکلتا ہے توبجائے اپنے تصور اور اپنے رویے کو غلط سمجھنے کے اپنے دوست کو غلط سمجھ لیتا ہوں۔پوری زندگی اسی طرح گزری ہے اور ابھی بھی میرے رویے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔عز ت‘شہرت اور دولت کی تمنّا ہر کسی کو ہوتی ہے۔مجھے بھی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن عزتِ نفس کو مجروح کر کے ملنے والی ظاہری عزت ہو‘شہرت ہو یادولت ہو‘مجھے کبھی اس کی تمنا نہیں رہی۔
دسویں کے بعد جب میں نے نوکری کرلی‘تب میں دعا کیا کرتا تھا کہ الٰہی!بے شک مزدوری ہی کرتا رہوں لیکن مجھے ایم اے تک تعلیم حاصل کرنے کی توفیق ضرور دے ۔چلو لوگ یہ تو کہیں گے کہ بے شک مزدور ہے لیکن ایم اے تو کیا ہوا ہے۔۔۔ایم اے پاس مزدور۔۔کیا بات ہے!۔۔۔جب ایم اے کر لیا اور میں مزدور کا مزدور ہی رہ گیاتب میں نے خواہش کی کہ کچھ تو ترقّی کرلوں۔تب ہی مجھے شفٹ کیمسٹ بنا دیا گیا۔یہ آفیسر کیڈر کی جاب تھی۔لیکن میری تنخواہ بہت ہی کم تھی۔وہی مزدور کی حیثیت والی تنخواہ۔۔۔۔قلیل تنخواہ سے تنگ آکر ایک دن میں نے تمنّا کی کہ بندہ بھلے مزدور ہی ہو لیکن تنخواہ تو اچھی ہو۔یہ تمنّا اب جرمنی میں آکر یوں پوری ہوئی ہے کہ یہاں پھر سے مزدور ہو گیا ہوں لیکن پاکستان کے حساب سے تنخواہ مناسب ہے۔ان سارے تجربوں سے میں نے دو باتیں سمجھی ہیں۔ایک تو یہ کہ خدا سے اگر مانگنا ہے تو تھوڑا نہیں مانگو۔ہوس بھی ٹھیک نہیں ہے لیکن اپنے پَیروں کے برابر چادر ضرورمانگو۔جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی ایک حمد کا شعر یاد آگیا ہے ؂
اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن
میری چادر ‘ میرے پَیروں کے برابر کردے
دوسری یہ کہ اﷲ میاں بھی شاید اس انتظار میں یا تاک میں بیٹھا ہوتا ہے کہ کب یہ تھوڑے کی تمنّا کرے اور اس کی آرزو پوری کردوں۔اسی لئے اب میں تھوڑے پر راضی نہیں ہوتا۔مثلاََ اگر کوئی لاٹری ٹکٹ ۱۰۰مارک سے ایک ملین مارک انعام تک کا ہے تو میں سب سے بڑا انعام ہی مانگوں گا۔دوسرے نمبر والا بھی نہیں مانگوں گا۔لاٹری نہیں نکلتی نہ نکلے لیکن مانگنا ہے تو سب سے بڑا انعام ہی مانگنا ہے۔ ویسے یہ صرف مثال سے واضح کیا ہے وگرنہ میں یہاں لاٹری کے چکر میں نہیں پڑا۔
جسمانی لڑائی میرے بس کا روگ نہیں ہے۔شاید اسی لئے ذہنی لڑائی لڑنے کی قوت مجھ میں زیادہ ہے۔لیکن افسوس ابھی تک مجھے کسی اچھی علمی لڑائی لڑنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔یورپ کی سطح پر ایسے لوگوں نے جن کے بے وزن شعری مجموعے میں نے بے نقاب کرائے‘جن کے افسانوں کی چوریاں شواہد کے ساتھ ظاہر کیں‘جن کی شعری چوریاں مکمل ثبوت کے ساتھ پیش کیں۔ان لوگوں نے اُن چوریوں اور جعل سازیوں کا جواب دینے کی بجائے میرے خلاف گمنام ’’گشتی مراسلہ بازی‘‘کانہایت غلیظ سلسلہ شروع کیا۔ظاہر ہے ایسی کسی خاتون یا اس کے اسی نوعیت کے چاہنے والوں سے لڑنا میرے بس کی بات ہی نہیں ۔ا س نوعیت کی غلیظ لڑائی کے لئے تو انہیں کے قبیلے کے ا فرادہی ان سے لڑ سکتے ہیں۔
ادبی چور اچکوں سے ہٹ کر‘ میں نے ماہیے کی بحث میں تھوڑی سی علمی لڑائی لڑی ہے۔ میرے ہتھیار مضبوط دلائل ہوتے ہیں۔لیکن مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہماری علمی ‘ادبی دنیا میں عام طور پر محض مضبوط دلائل کام نہیں آتے۔ایک مضمون کے جواب میں میرے مدلل جواب کو نظر انداز کردیا گیا۔لیکن جب میرے احباب میں سے ایک دوست نے مخالفین جیسے انداز میں انہیں جواب دیا تو باوجود اس کے کہ ان کے دلائل مضبوط نہ تھے ‘یار لوگ اس مضمون کے بعد ٹھنڈے پڑ گئے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وقتی کامیابی کے لئے یہی گُر مناسب ہے۔اس کے باوجود میں جانتاہوں کہ میں خود اس گُر کو کبھی بھی استعمال نہیں کر سکوں گا۔شروع میں جب کوئی مخالفانہ مضمون آتا تھا تو میں غصے کے ساتھ کانپتا تھا اور جب تک جواب نہ لکھ لیتا تھا مجھے چَین نہیں آتا تھا۔لیکن جب سے میں نے سکہ رائج الوقت کو سمجھ لیا ہے مجھے اب زیادہ غصہ بھی نہیں آتااور مخالفین کی کسی واقعی اہم بات کا جواب تو ضرور دیتا ہوں مگران کی عام اور سطحی باتوں کی اب میں پرواہ بھی نہیں کرتا۔
میں مزاجاََ کنجوس نہیں ہوں لیکن اپنی ذات پر خرچ کرنے کے معاملے میں ہمیشہ سے کنجوس ہوں۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے ایف اے کا امتحان دینے کے لئے مجھے خانپور سے رحیم یارخاں جانا تھا۔ابا جی مجھے خود لے کر رحیم یارخاں گئے۔وہاں انہوں نے مجھے تھوڑی سی رقم دی کہ امتحان کے بعد کچھ کھا پی لینا۔مجھے امتحان گاہ تک چھوڑ کر ابا جی خانپور واپس چلے گئے۔امتحان کے بعد میں نے دو آنے کے چنے بھنوائے اور باقی ساری رقم لا کر ابا جی کو دے دی۔گھر کا خرچ میں نے کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا۔آج بھی کسی ریستوران میں کھانا کھانے یا کافی پینے کی نوبت آجائے تو بھلے ادائیگی کوئی اور ہی کرے مجھے فضول خرچی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ میں کنجوسی اور فضول خرچی میں فرق سمجھتا ہوں۔اس رویے نے مجھے ادبی لحاظ سے ایک فائدہ پہنچایا ہے کہ میں کفایت لفظی سے کام لیتا ہوں۔یہ بھی میری عادت سی ہے۔مجھے اس کا اتنا زیادہ اندازہ نہیں تھا۔بس ایک ہلکا سا احساس تھا کہ جو کچھ کہنا ہے اسے مناسب اور کم سے کم لفظوں میں کہنا چاہئے۔ایک بار انڈیا سے شاہد ماہلی اور ڈاکٹر وسیم بیگم جشنِ غالب کے سلسلے میں جرمنی آئے تو ڈاکٹر وسیم بیگم نے میرے افسانوں کی ایک خاص بات مجھے یہ بتائی کہ بہت ہی کم سے کم الفاظ میں اپنی بات پوری کردیتا ہوں۔یہ بات انہوں نے غالباََ اپنے کسی تبصرے میں لکھی بھی تھی۔ تب مجھے خوشی ہوئی کہ میری کفایت شعاری کی کمزوری نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے۔
میرے احباب بخوبی جانتے ہیں کہ مجھے ان کی طرف سے ادائیگی کی صورت میں بھی کسی ریستوران میں کھانا پینا اچھا نہیں لگتا۔جب کہ اپنے گھر پر احباب کی میزبانی سے مجھے ہمیشہ خوشی ہوئی ہے۔میرے اہلِ خانہ نے بھی مہمان نوازی میں کبھی کوئی کسر نہیں رہنے دی۔میرے مقامی احباب کے علاوہ ‘ وہ سارے شعراء اور ادباء بھی اس کی تصدیق کریں گے جو میرے ہاں آچکے ہیں۔
میری بیوی کا خیال ہے کہ میں انتہا پسند ہوں۔یا تو اتنا میٹھا بن جاؤں گا کہ دوسرا مجھے محبت ہی میں کھا جائے۔اور یا اتنا کڑوا ہو جاؤں گا کہ کسی کے حلق سے ہی نہیں اتروں گا۔مجھے اپنی اس کمزوری کا ادراک ہے۔میں خود کو بدلنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن جو عیب قدرتی طور پر ودیعت کیا گیا ہو وہ ختم نہیں ہو سکتا۔میرے بیٹوں کا کہنا ہے کہ میں کسی رشتہ دار پر جب بگڑتا ہوں تو حق بجانب ہوتا ہوں۔کسی سے بہت تنگ آکر رابطہ منقطع کر لیتا ہوں لیکن جب وہی رشتہ دار آکر جذباتی انداز میں منانے لگیں توفوراََ مان جاتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی دوست یا عزیز سامنے آکر رونے لگ جائے اوراپنی غلطی کا اقرار کرلے تو اس کے بعد میرے لئے ناراض رہنا تکبّر کے زمرہ میں آتا ہے۔کوئی میرے سامنے آکر رونے لگے تویہی بات مجھے بیحد خوفزدہ کردیتی ہے اورپھر میں سب کچھ بھول بھال جاتا ہوں۔ایک قریبی عزیز تو اتنی دفعہ شرارتیں کر چکے ہیں اور پھر اتنی دفعہ گڑگڑا کر معافیاں مانگ چکے ہیں کہ میرے لئے رشتہ داری ہی عذاب بنادی ہے۔نہ ان سے تعلق جوڑا جاسکتا ہے نہ پوری طرح توڑا جا سکتا ہے۔ذرا سی طاقت یا موقعہ ملتے ہی وار کردیں گے اور غبارے میں سے ہوا نکلتے ہی پھر رو رو کر منانا شروع کر دیں گے ۔چونکہ میرے بیٹوں نے ان کے سارے واقعات بچشمِ خود دیکھے ہیں۔شاید اسی لئے وہ میرے رویے کو میرا عیب کہتے ہیں۔
میری چھوٹی بیٹی مانو کے نزدیک مجھ میں جو عیب ہے وہ ذرا بعد میں بتاؤں گا۔پہلے یہ واضح کردوں کہ میری امی جی نے گھر کے کام کاج میں مَردوں کو زحمت نہیں دی۔اباجی ہوں‘یا باباجی‘میں یا میرے چھوٹے بھائی‘ہم میں سے کسی نے گھر کے اندر کے کام کاج نہیں کئے۔مثلاََ کپڑے یا برتن دھونا‘چارپائیاں اُٹھانا‘بستر بچھانا‘کھانا پکانا وغیرہ۔مبارکہ سے میری شادی ہوئی تو یہ بھی اپنی پھوپی کے رنگ میں رنگ گئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ نہ بٹانے کی میری عادت مضبوط ہوگئی۔حالانکہ گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔اور تو اور میری بڑی بیٹی رضوانہ بھی ماں جیسی ہی نکلی۔اس کی شادی ہو گئی تو گھر کے کام کاج کی ذمہ داری مانو پر آن پڑی اور اس نے بڑی چالاکی کے ساتھ گھر کے معمولات کو تبدیل کردیا۔چائے بنانے سے لے کربرتن دھونے تک بھائیوں کو بھی کام پر لگا لیا۔یوں اب میرے تینوں بیٹے ماشاء اﷲ گھر کے بیشتر کام کاج کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔سو جب میں نے مانو سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک میری سب سے بڑی کمزوری کونسی ہے؟تو اس نے فوراََ کہا آپ گھر کے کام کاج بالکل نہیں کرتے۔بات تو ٹھیک ہے لیکن اب عادت پختہ ہو چکی ہے۔
اس قسم کی عادتوں کو بیماریوں میں شمار کرنا چاہئے کہ ایسی عادت علّت کے زمرہ میں آتی ہے اور علّت و علالت کا قرب ظاہر ہے۔مجھے بیشتر عادتیں اور بیماریاں والدین سے ملی ہیں۔میرے ننہال میں شوگر کی بیماری موروثی ہے۔امی جی کو بھی شوگر کی شکایت تھی اور اسی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔سو مجھے شوگر کی شکایت ہے۔اسی طرح ابا جی کو بواسیر کی شکایت تھی ۔ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف بھی تھی۔مجھے یہ دونوں بیماریاں بھی ایک عرصہ سے لاحق ہیں۔بس اتنا ہے کہ ابا جی کے مقابلہ میں مجھے ایسے وسائل میّسر ہیں کہ میں آسانی سے انہیں کنٹرول کئے رکھتا ہوں۔’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘پر ممکنہ حد تک عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔کبھی کبھی بد پرہیزی بھی ہو جاتی ہے۔ویسے جرمنی آنے کے بعد بلڈ پریشر بالکل نارمل ہو گیا ہے۔اس کے باوجود وقتاََ فوقتاََ چیک کرتا رہتا ہوں۔بواسیر کی جڑیں ختم تو نہیں ہوئیں لیکن یہ بیماری بھی اس حد تک کنٹرول میں آگئی ہے کہ گویا ہے ہی نہیں۔اسے خدا کا فضل کہنا چاہئے کہ بیماری ہوتے ہوئے بھی’’ نہ ہونے‘‘ جیسی ہے۔
بواسیر کی تکلیف سے یاد آیا اس کا ایک سادہ سا دیسی علاج یہ ہے کہ مولیوں کے بیج لے کر انہیں تھوڑا سا کُوٹ کردو چمچ صبح‘دوپہر‘شام پانی کے ساتھ پھانک لینے سے دو ہفتوں میں تکلیف ختم ہوجاتی ہے ۔آپریشن تو نہیں ہوتا لیکن جلن اور تکلیف بھی نہیں ہوتی۔جب میں شوگر مل میں ملازم تھا اس زمانے میں ایک بار میں نے لیبارٹری میں ایک خوراک پھانکی تو ایک دوست نے پوچھا کہ یہ کیاہے؟ساری تفصیل جاننے کے بعد پھر کہنے لگا اگر یہ بیج اس بیماری کے لئے مفید ہیں تو انہیں کُوٹنے کی کیا ضرورت ہے۔ثابت بیج بھی تو کھائے جا سکتے ہیں۔تب میں نے اسے کہا تھا کہ بھائی!یہ مُولی کا بیج ہے اس لئے احتیاط کرنا چاہئے۔خدانخواستہ پیٹ میں جاکر بیج سے مُولی اُگ آئی تو بواسیر کا مریض بے چارہ بیماری کے بجائے اپنے علاج کے ہاتھوں مارا جائے گا۔
میں پاکستان میں بھی پانی بہت پیتا تھا اس سے قبض کی شکایت نہیں ہوتی۔جرمنی آنے کے بعد جب شوگر کی بیماری لگی تب ڈاکٹر کی ہدایت کے پیش نظر میں نے پانی پینے کی مقدار میں اضافہ کردیا۔چاہے جرمنی کی دسمبر کی یخ سردیاں ہوں‘میں اپنے معمول کے مطابق دن میں کم از کم تین جگ پانی کے پی جاتا ہوں۔کسی شرط کے بغیر پانی کا ایک جگ تو میں آرام سے آدھ‘پون گھنٹے میں پی جاتا ہوں ۔پانی زیادہ پینے کے نتیجے میں مجھے بار بار پیشاب کے لئے جانا پڑتا ہے لیکن اپنی صحت کی خاطر اتنا کچھ تو کرنا ہی چاہئے۔پانی کثرت سے پینے کے باعث مجھے اپنے اندر کی صفائی کی بھی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
بواسیر‘بلڈ پریشر اور شوگرکی بیماریاں مجھے اپنے والدین سے ملی ہیں تو میں انہیں اپنی وراثت سمجھتا ہوں۔ان ساری بیماریوں کے میرے حصے کے دُکھ بھی وہ آپ اُٹھا گئے ہیں کہ تب نہ تو ان کی تشخیص اور بروقت چیک کرنے کی سہولت تھی اور نہ ہی مناسب علاج میّسر تھا۔اور ان کے حصے کے بروقت تشخیص‘بروقت کنٹرول اور مناسب علاج معالجے کے سارے سُکھ مجھے مل گئے ہیں۔اگرچہ میں نے بغیر چینی کے چائے پینے کی عادت بنا لی ہے لیکن اب ’’شوگر فری‘‘گولیاں عام مل جاتی ہیں۔اور تو اور ’’شوگر فری‘‘ چینی بھی مل جاتی ہے۔اس سے اپنی مرضی کی مٹھائیاں تیار کرائیں‘کیک بنائیں۔گھر والے عموماََ میرے لئے ایسی چیزیں تیار کرتے رہتے ہیں۔گویا ورثے میں ملی ہوئی یہ بیماریاں تو اچھی بھلی عیّاشی ہیں۔میرے امی ‘ابو بھی عجیب تھے۔بیماریوں کے معاملے میں بھی میرے سُکھ کے لئے‘خود ہی سارے دُکھ بھوگ گئے۔
بخار ہونے کی صورت میں مجھے گھبراہٹ تو ہوتی ہے لیکن میں ٹمپریچر کی زیادتی کے باوجود بخار کو آسانی سے برداشت کرلیتا ہوں۔بخار کے اختتام پر مجھے عموماََ متلی سی ہونے لگتی ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے کچا تھوک مسلسل نکلتا آرہا ہے۔مسلسل تھوکنا پڑتا ہے اور مجھے وحشت ہونے لگتی ہے۔امرت دھارا کے استعمال سے اس وحشت سے نجات ملتی ہے۔ایک عرصہ تک بخار کے ساتھ یہ مصیبت رہی اور میں بخار سے زیادہ بخار کے ختم ہونے سے گھبرایا کرتا تھا۔خدا کا شکر ہے اب ایک عرصہ سے بخار کے بعد متلی کی مصیبت سے جان چھوٹ گئی ہے۔
۱۹۷۳ء میں خانپور میں قیامت خیز سیلاب آیا تھا۔تب ہمارا مکان اس سیلاب کی نذر ہو گیا تھا۔مشرقی جانب کمرے کی دیوارگر چکی تھی۔خیال تھا کہ اس طرف نئی دیوار اُٹھا کر کام چلا لیں گے۔لیکن باقی دیواروں کی حالت بھی سیلاب کی مار سے کچھ مخدوش سی لگتی تھی۔اسی دوران بابا جی ایک کمرے اور برآمدے کے درمیانی دروازے کو اینٹ مار کر نکالنے لگے۔تب بابا جی کمرے کی طرف تھے۔اباجی اور میں برآمدے کی طرف تھے۔برآمدے کی مشرقی سائڈ والی دیوار سلامت تھی۔جبکہ کمرے کی مشرقی سائڈ والی دیوار گر چکی تھی۔میں دروازے کے قریب تھا۔۔۔۔۔ابا جی تھوڑا سا پیچھے تھے اور بابا جی کو روک رہے تھے کہ غلام حسین !ایسے مت کرنا۔لیکن باباجی نے اسی دوران ہی اینٹ سے دروازے کے اوپری حصّہ پر ضرب لگا دی۔ایک دھماکہ سا ہوا۔میں پیچھے پلٹا تو ابا جی کو باہر جمپ کرتے دیکھا۔باباجی کے بارے میں مجھے ایسے لگا جیسے وہ اندر ملبے کے نیچے آگئے ہوں۔ابا جی نے بعد میں بتایا کہ بابا جی نے تو مشرقی جانب چھلانگ لگالی تھی۔ابا جی کو ایک بار تو ایسے لگا کہ بیٹا گیا۔دل میں انّا ﷲ بھی پڑھ لیا۔ پھر انہوں نے مجھے آواز دی تو میں نے ملبے میں سے کہا کہ میں توٹھیک ہوں‘باباجی کا پتہ کریں۔تب ابا جی کو تھوڑی سی تسلی ہوئی ۔انہوں نے وہیں سے بتایا کہ بابا جی بھی خیر سے ہیں۔یہ سب کچھ کیسے ہوا؟اس کا تو کچھ پتہ نہیں‘ لیکن صورتحال یہ تھی کہ برآمدے کی چھت کے ساتھ ساتھ‘اس سے منسلکہ کمرے کا بیشتر ملبہ بھی مجھ پر آن گرا تھا۔لیکن ایسے طریقے سے کہ شہتیروں نے ایک دوسرے کو ٹیک دے کر اوپر آئی ہوئی کَڑیوں کو روک رکھا تھا۔جب سارا ملبہ ہٹاکر مجھے باہرنکالا گیا تو میں خود چل کر ساتھ والے ہمسائے چاچابگو کے گھر تک گیا۔میں کہہ رہا تھا میں بالکل ٹھیک ہوں۔لیکن بابا جی کا کہنا تھا کہ ابھی جسم گرم ہے اس لئے ایسا لگ رہا ہے۔ابا جی مجھے چارپائی پر لیٹنے کو کہہ رہے تھے۔جب میں چارپائی پر بیٹھا تو اندر کی ضربوں نے اپنے ’’ہونے‘‘کا احساس دلانا شروع کردیا۔تب مجھ پر گھبراہٹ سی طاری ہوئی۔اسی دوران دودھ اور دیسی گھی کو ملا کر گرم کر چکے تھے۔اسے پینے سے کچھ بہتر محسوس ہوا۔بعد میں ہسپتال بھی گئے لیکن دودھ اور دیسی گھی والا نسخہ زیادہ کارگر رہا۔
دودھ اور دیسی گھی سے ایک اور واقعہ یاد آگیا۔شوگر مل کی ملازمت کے دوران ایک بار رمضان شریف کا مہینہ تھا۔میری ڈیوٹی کا وقت ایسا تھاکہ افطاری ڈیوٹی پر ہی کرنا ہوتی تھی۔سو لیبارٹری میں ہم سارے لوگ افطاری کا انتظام کرلیتے تھے۔لیبارٹری میں نمک بھی اچھی کوالٹی کا ہوتا تھا۔اس دن کسی نے غلطی سے نمک جیسا کوئی اور کیمیکل لا کر رکھ دیا۔مالٹے کاٹ کر ان پر نمک چھڑک دیا گیا۔جب افطار کے وقت سب نے روزہ کھولاتو کھجور کے بعد بیشتر نے مالٹے کی طرف توجہ کی۔اس کے بعد جب مٹھائی اور پکوڑوں کی باری آئی تو دونوں چیزیں ہی پھیکی بلکہ بے ذائقہ لگ رہی تھیں۔جن ایک دو ساتھیوں نے ابھی مالٹے نہیں چکھے تھے‘وہ کہہ رہے تھے کہ مٹھائی بھی اچھی ہے اور پکوڑے بھی مزے کے ہیں۔لیکن باقی سارے ساتھیوں کو کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا تھا۔تب ہمارے چیف صاحب یا لیبارٹری انچارج نے آکر چیک کیا تو پتہ چلا کہ نمک کا ہم شکل کوئی اور کیمیکل غلطی سے استعمال ہو گیا ہے۔یہ مرکری سے متعلق کوئی کیمیکل تھا۔اب نام یاد نہیں آرہا۔اس سے مجھے اور تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی لیکن ذائقے کا احساس بالکل ختم ہوگیا۔ کئی قسم کے دیسی ٹوٹکے کرنے سے غالباََ بارہ گھنٹے کے لگ بھگ وقفہ کے بعد اس کیمیکل کا اثر زائل ہوا۔گھریلو ٹوٹکوں میں دودھ گرم کرکے اس میں دیسی گھی ملا کر پینا بھی شامل تھا۔اس تجربے سے مجھے ’’ذائقے‘‘کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہوا۔ذائقے کا احساس نہ ہو تو لذیذ ترین چیز بھی بے معنی ہوجاتی ہے۔
شوگر مل اور لیبارٹری سے مہدی حسن یاد آگئے۔یہ ہمارے لیبارٹری کیمسٹ تھے۔شوگر مل کی سیاست کے حوالے سے ان کا ذکرپہلے بھی کر چکا ہوں۔حیدر آباد دکن سے آنے والے یہ دوست بہت ہی نفیس انسان تھے۔گفتگو کرنے کے بادشاہ تھے۔ ادب‘ سیاست‘ فلم ‘مذہب ۔ ۔۔۔ کسی موضوع پر بات ہو‘عمدہ گفتگو کرتے تھے۔ باقی موضوعات پر سب ہی کچھ نہ کچھ معلومات رکھتے تھے لیکن انڈین فلموں کے معاملے میں انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔تب میں ہی تھا جس کی معلومات پر وہ بھی حیران ہوئے۔
تب ٹی وی چینلزکا موجودہ سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔میں اُس زمانے میں دوسرے رسائل کے ساتھ فلمی رسائل بھی پڑھتا تھا‘ ویکلی’’مصوّر‘‘لاہور نے غلام اکبر کی ادارت میں ایک ہنگامہ خیز اور باغیانہ روایت آغاز کیا تھا۔پاکستانی فلموں پر بے لاگ تبصروں کے ساتھ انڈین فلموں کی کہانیوں اور ان کے بارے میں معلومات شائع کرنے کا سلسلہ ’’مصور‘‘میں بے حدپسند کیا جاتا تھا۔تب کہانی چوروں کو بے نقاب کیا جاتا تھا(افسوس کہ بعد میں کہانی چوروں نے مل کر غلام اکبر کو ’’مصورّ‘‘کی ادارت ہی سے فارغ کرادیا)یوں مجھے بہت سی فلموں کی کہانیاں اور ڈائیلاگ تک یاد ہو گئے تھے۔گانوں سے ریڈیو کے ذریعے اتنا رابطہ تھا کہ گانے کے بول کے ساتھ گلوکارکانام‘ فلم کا نام ‘گیت کار کا نام‘اور موسیقار کا نام بھی یاد ہوتا تھا۔ اب ایک طرف میری معلومات ایسی تھی کہ دورانِ گفتگو مہدی حسن بھی حیران ہوجاتے دوسری طرف میں یہ بھی کہتا تھا کہ میں نے کبھی کوئی فلم نہیں دیکھی۔مہدی حسن میری یہ بات نہیں مانتے تھے اور اندر کی بات میں نے انہیں بتائی نہیں تھی۔
خیر ۔۔۔یہ بات یونہی طویل ہوئی جارہی ہے۔اصل میں مجھے یہ ذکر کرنا تھا کہ مہدی حسن چائے پینے کے معاملے میں بہت نفاست دکھاتے تھے۔لیبارٹری میں چائے بنائی جاتی‘ان کی وجہ سے چینی بہت ہی کم ڈالی جاتی۔اس کے باوجود وہ ہمیشہ کہتے کہ یار!چینی زیادہ ہے۔
ایک بار میں نے اپنے ساتھی لال دین سے کہا کہ آج چائے میں بناؤں گا۔ساتھ ہی اسے بتا دیا کہ آج چینی بالکل نہیں ڈالیں گے۔چنانچہ بغیر چینی کے چائے تیار کی گئی۔میں نے خود مہدی حسن کو چائے پیش کی اورکہا کہ امید ہے آج آپ کو چینی مناسب لگے گی۔مہدی حسن نے چائے کی ایک چُسکی لی اور کہنے لگے پہلے سے بہت بہتر ہے لیکن میرے حساب سے ابھی بھی تھوڑی سی زیادہ ہے۔
ابے سالے!تیری افسری کی بھی اور تیری بھی ایسی کی تیسی۔۔۔۔اس سے کم اور کیا ہوگی؟
مہدی حسن میرے اندازِ گفتگو سے سٹپٹا گئے کیونکہ میں کبھی ایسے نہیں بولتا۔جب انہیں چائے میں چینی کی ساری حقیقت بتائی تو نہ صرف بے حد شرمندہ ہوئے بلکہ اس کے بعد ہم کچھ اور قریبی دوست ہوگئے۔یہ دوستی وقت اچھا گزارنے والی تھی۔باہمی اعتماد والی نہیں تھی۔اور اب میں خود بغیر چینی والی یا شوگر فری گولیوں والی چائے پیتا ہوں تو کبھی کبھی مہدی حسن یاد آجاتے ہیں۔
شوگر مل کے ماحول میں صرف مہدی حسن ہی ایسے تھے جن سے مختلف موضوعات پر نہ صرف گفتگو ہو سکتی تھی بلکہ اس گفتگو کا مزہ بھی آتا تھا۔ان کے بعد اظہر ادیب سے رابطہ ہوا ۔وہ اچھے دوست تھے لیکن ان کے ساتھ ایک حد تک ادبی یا پھر ذاتی باتیں کی جاسکتی تھیں۔یوں مہدی حسن کی اہمیت اپنی جگہ رہی۔پھر وہ شوگر مل کی نوکری چھوڑ گئے۔اپنے رشتہ داروں میں کہیں شادی کرکے سسرال کی زمینوں کی دیکھ بھال کرنے لگے۔اسی دوران ایک دن اچانک شوگر مل میں آگئے۔انہیں دیکھ کر‘ ان سے مل کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔میں ان کے ساتھ بیٹھنا اور گپ شپ کرنا چاہتا تھا۔لیکن مجھے اُس وقت ہلکا سا شاک لگا جب پتہ چلا کہ انہیں پٹرول کی ضرورت ہے۔ان دنوں پٹرول کی فراہمی کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔سو مجھے کہا گیا کہ خانپور میں پٹرول نہیں مل رہا‘میں جا کر ظاہر پِیر سے پٹرول کا ایک کنستر لادوں۔ظاہر پِیر کو سڑکوں کا جنکشن سمجھیں۔یہ خانپور سے دس پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔میں پٹرول لینے چلا گیا۔جب واپس آیا تو مہدی حسن کے جانے کاوقت ہو گیا تھا۔اس کے بعد ایک زمانہ گزر گیا مہدی حسن سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔
۱۹۹۲ء میں جب میں ایبٹ آباد میں تھا‘ایک بار اسلام آباد گیا۔وہاں انڈین سفارت خانے سے انڈیا کا ویزہ لینے کے لئے لائن میں کھڑا تھا۔ایک موٹے سے شخص نے آکر مجھے مخاطب کیا:’’آپ حیدر قریشی ہی ہیں نا؟‘‘
’’جی‘‘میں نے مختصر سا جواب دیا۔
’’مجھے پہچانا؟‘‘ اُس شخص نے پھر پوچھا۔میں نے ایک ثانئے کے لئے اسے غور سے دیکھا او رپھر ’مہدی حسن‘ کا نعرہ لگا کر ان سے لپٹ گیا ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مہدی حسن کبھی اتنے موٹے ہو سکتے ہیں۔جیسے شمی کپور کی ابتدائی فلموں والی جسامت اور آج کی ضخامت میں فرق ہے بالکل ویسا ہی فرق پہلے والے اور اب والے مہدی حسن میں تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ مہدی حسن اتنے موٹے ہو گئے ہیں۔
سفارت خانے سے فارغ ہو ئے تو مجھے ویزہ مل گیاتھا اور مہدی حسن کو انکار کر دیا گیا تھا۔حالانکہ میرا کوئی رشتہ دار انڈیا میں نہ تھا جبکہ مہدی حسن کی آبائی حویلی بھی وہاں تھی اور بہت سارے رشتہ دار حیدرآباد اورانڈیا کے دوسرے شہروں میں مقیم تھے۔بہر حال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہدی حسن کو میں نے ایبٹ آباد ساتھ چلنے کی دعوت دی ۔انہوں نے اپنی بہن یا کزن کو کوئی ضروری بات بتانا تھی۔اس لئے طے پایا کہ راولپنڈی کے اس ویگن اڈہ پر ملیں گے جہاں سے ایبٹ آباد کے لئے ویگنیں جاتی ہیں۔وقتِ مقررہ تک مہدی حسن وہاں نہیں پہنچے تو میں نے مزید انتظار نہیں کیا اور ایبٹ آباد چلا گیا۔یوں ہماری ملاقات ادھوری رہ گئی۔مجھے مہدی حسن سے ملاقات نہ ہو سکنے کا آج تک افسوس ہے۔لیکن کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ راولپنڈی جیسے شہر میں جہاں بسوں اور ویگنوں سے سفر کرنے والوں کو دیر سویر ہو سکتی ہے۔مجھے چاہئے تھا کہ میں مقررہ وقت کے بعد بھی ان کا انتظار کر لیتا۔اور پھر مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے میں نے مہدی حسن کا مزید انتظار نہ کرکے ان سے پٹرول منگانے والی زیادتی کا بدلہ لے لیا تھا۔شعوری طور پر نہ سہی‘لا شعوری طور پر بھی تو ہم سے کمینگیاں سرزد ہو جاتی ہیں ۔
اپنی خامیاں آپ گنوانا مشکل کام ہے۔اپنے آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم میں کیا کمزوری ہے۔جب تک پتہ چلتا ہے تب تک عادتیں اتنی پختہ ہو چکی ہوتی ہیں کہ ان سے نجات حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔مجھے یہی صورت حال درپیش ہے۔اس کے باوجود اپنی بیوی سے اور اپنے بچوں سے پوچھنے کے بعد اپنی جو کمزوریاں سمجھ پایا ہوں‘لکھ دی ہیں۔
مجھے اونچائی سے اور دریا‘یا سمندر کے پانی سے ڈر لگتا ہے۔حالانکہ پانی زندگی کی بنیاد ہے اور بلندیوں کے حصول کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کر گزرتا۔پہاڑ کی چوٹی تو دور کی بات ہے‘مجھے دس بارہ منزلہ عمارتوں سے نیچے جھانکتے ہوئے بھی وحشت ہوتی ہے۔ در اصل میں بچپن سے بہت ڈرپوک ہوں۔’’اندھیرے کی ماں‘‘سے ایک عرصہ تک بہت ڈر لگتا رہا۔امی‘ابو مجھے کسی شرارت سے روکنے کے لئے عموماََ آخری حربے کے طور پر ’’اندھیرے کی ماں آجائے گی‘‘کہہ کر ڈراتے اور میں شرارت سے باز آجاتا۔یہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ’’اندھیرے کی ماں‘‘تو بڑی کام کی چیز ہے۔انسان کی پردہ پوشی جیسا نیک کام کرتی ہے۔
دوپہر کے وقت بھی اگر کبھی امی مجھے کہتیں کہ گھر کی چھت پر پڑی کوئی چیز لے آؤ تو میں بھری دوپہر میں بھی چھت پر جاتے ہوئے گھبراتاتھا۔کسی چھوٹے بھائی کو ساتھ لے لیتا۔گھر پر کوئی اور نہ ہوتا تو ڈرتے ڈرتے چھت پر جاتا اور وہاں سے آوازدیتا رہتا۔
’’امی !چھاج نہیں مل رہا۔کس طرف ہے؟۔۔۔۔۔۔۔‘‘
امی جی وہیں سے ہنس کر آواز دیتیں:
’’تُو بھی میری طرح ڈرپوک ہے۔دھیان سے دیکھ چھت پر ہی ہے‘‘
اور میں جیسے تیسے چھاج(یا جو کچھ بھی منگایا جاتا)لے کر چھت کی سیڑھیوں سے جلدی جلدی اترنے لگتا اور اترتے اترتے بھی کوئی نہ کوئی بات کرتا جاتا۔
تو صاحب!اندھیرا ہو یا اجالا۔۔۔۔میں تنہائی سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔ایک عمر کے بعد معلوم ہوا کہ گیان کی روشنی اسی تنہائی سے نصیب ہوتی ہے۔پَر خوف اور گناہ کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد یہ منزل نصیب ہوتی ہے۔میں بھی گیان کی منزل کا راہی ہوں لیکن ابھی رستے میں ہوں اور شاید جان بُوجھ کر رستے میں ہوں کہ رستوں کا‘سفر کا اور سفر کی چھوٹی چھوٹی منزلوں کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen