Freitag, 15. Juli 2011

میری عمر کا ایک سال

میری عمر کا ایک سال
(۱۳ ؍جنوری ۲۰۰۳ء سے ۱۳؍ جنوری ۲۰۰۴ء تک)

عام طور پرشاعروں اور ادیبوں نے اپنی زندگی کے کسی خاص سال کے حوالے سے کچھ لکھا ہے تو اپنی عمر کے چالیس سال پورے ہونے پر لکھا ہے،یا پچاس سال پورے ہونے پر۔اپنی ادبی زندگی کی کسی نوعیت کی جوبلی پر بھی لکھا ہے۔لیکن میرا طرزِ عمل غیر ارادی طور پر شروع سے ہی اس معمول سے مختلف رہا ہے۔میں نے اپنی شادی کے ساڑھے بارہ سال گزرنے کے بعد ایک نظم ’’نصف سلور جوبلی‘‘ کہی تھی جبکہ شادی کی سلور جوبلی پر کچھ بھی نہیں لکھا۔عمر کے چالیس سال پورے ہونے سے پہلے تینتیس سال کی عمر میں ’’بڑھاپے کی حمایت میں‘‘انشائیہ لکھ دیا تھا لیکن چالیس سال پورے ہونے پر کچھ نہیں لکھا۔اسی طرح عمرِ عزیز کے پچاس سال پورے ہونے پر کچھ نہیں لکھا لیکن اب باون سال پورے ہونے پر لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔جی ہاں۔۔۔آج ۱۳؍جنوری ۲۰۰۴ء کو میں باون سال کا ہو کر ۵۳ویں سال میں قدم رکھ چکا ہوں۔سال کے باون ہفتے ہوتے ہیں اور تاش کے باون پتے ہوتے ہیں۔گردش ماہ و سال تاش کے سارے پتے مجھ پر آزما چکی ہے تو مجھے اپنی ایک غزل کا یہ شعر یاد آگیاہے ۔
داؤ پر  جو ہمیں   لگا بیٹھا
وقت شاید کوئی جواری ہے
آج سے دس سال پہلے میں نے اپنے انشائیہ ’’وِگ‘‘ میں لکھا تھا:
’’میں بیالیس سال کی عمر میں بلا وجہ باون برس کا بنا ہوا تھا‘‘
اور اب جب واقعی باون برس کا ہو گیا ہوں تو عمر کے اس ایک برس کی تازہ ترین یادوں کو لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔۱۳؍جنوری ۲۰۰۳ء سے ۱۳ جنوری ۲۰۰۴ ء تک کے ایام کیسے گزرے؟ یہ سال کئی لحاظ سے میرے لئے خاص اہمیت کا حامل سال بن گیا ہے۔خداکے کچھ ایسے فضل ایک تسلسل کے ساتھ ہوئے ہیں کہ تحدیث نعمت کے طور پر ان کا ذکر کردینا مناسب ہے۔ میری یادوں میں ان سب کا بھی ایک حصہ ہے۔لیکن تحدیث نعمت سے پہلے اپنی دو کمزوریوں کا ذکر کروں گا جو مجھ پر گزشتہ سال کے دوران منکشف ہوئیں۔پہلی کمزوری یہ ہے کہ میں جب کوئی کتاب پڑھ رہا ہوتا ہوں ،صفحہ الٹتے ہی دائیں طرف پڑھنا شروع کرنے کے ساتھ اس سے اگلے صفحہ کو الٹنے کے لئے بائیں طرف کے صفحہ کو انگلیوں سے پکڑ لیتا ہوں تاکہ ورق الٹنے میں دیر نہ ہو۔عادت تو یہ میری ہمیشہ سے ہے مجھے اس عادت کا تب شدت سے احسا س ہوا جب میں نے حالیہ رمضان شریف میں ایک بزرگ کو ایسا کرتے دیکھا۔ تب مجھے اپنی اس عادت پر غورکرنے کا موقعہ ملا اور مجھے لگا یہ بھی میری جلد بازی کی عادت کا ایک اثر ہے۔اپنی جلد بازی کی عادت کے بارے میںیادوں کے ایک باب میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں،اس عادت کو اسی تسلسل میں دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسری عادت یہ ہے کہ میں عام طور پر’’ جھکی جھکی نگاہوں ‘‘کے ساتھ بات کرتا ہوں۔ایک بار ہالینڈ میں مقیم میرے ایک ’’کرم فرما‘‘جمیل الرحمن میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھے میری اس عادت پر ٹوکا تھا اورکافی کھول کر بتایاتھا کہ آنکھ ملا کر بات نہ کرنے والوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں بنتی۔
اس سال مجھے اپنی اس کمزوری پر غور کرنے کا موقعہ ملا۔بچپن کا شرمیلا پن اس عادت کا سبب ہو سکتا ہے۔اگرچہ میں نے اب تک کافی بے شرمی کر لی ہے پھر بھی جو بچپن کی عادت سی تھی وہ تومزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر ماہرین نفسیات کے حساب سے مان لیا جائے کہ ایسے لوگوں کے دل میں کوئی چورہوتا ہے تو مجھے اپنی بکل میں چھپے چور سے کبھی بھی انکار نہیں رہا۔
میری بکل دے وچ چور نیں میری بکل دے وچ چور
جس ۔ ڈھونڈ۔یا تس نے ۔پایا،نہ ۔جھُر جھُر ہویا مور
جیہڑا ۔لیکھ ۔متھے۔ دا ۔لکھیا ۔کون ۔کرے۔ بھن توڑ
میری بکل دے وچ چور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابابلہے شاہ کے ہاں تو ایک ہی چور تھا میرے اندر پتہ نہیں کتنے چور چھپے ہوئے ہیں۔بکل سے نکلوں گا تو پتہ چلے گا۔ اپنی ان دونوں کمزوریوں نے اس سال مجھے کچھ سوچنے پر مائل کیا۔ان کمزوریوں سے قطع نظر جنوری ۲۰۰۳ء کے وسط میں خبر ملی کہ اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور سے منزہ یاسمین نے میرے ادبی کام پر ایم اے اردو کاجو تحقیقی کام کیا تھا ،اس کی منظوری یونیورسٹی کی طرف سے دے دی گئی ہے۔اور اسی سال اگست،ستمبر تک وہ مقالہ یونیورسٹی کی منظوری کے ساتھ کتابی صورت میں شائع ہو گیا ہے۔اس سال خدا کا اس سے بھی بڑا کرم یہ ہوا کہ پہلے ایک مایوسی کی کیفیت ہونے کے بعد یکایک جنوری کے اواخر میں پہلے امکان روشن ہوااور پھر فروری کی پہلی کو مجھے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج پر جانے کی توفیق ملی۔دسمبر ۱۹۹۶ء میں ہم نے عمرہ کیا تھا اور اب فروری ۲۰۰۳ء میں ہمیں حج کرنے کی توفیق مل رہی تھی۔اسی سال میں نے دسمبر میں اس حج کی روداد لکھ لی اور اب یہ روداد میرے عمرہ کے سفر نامہ’’سوئے حجاز‘‘ کے نئے ایڈیشن میں اضافہ کے ساتھ شائع ہو گی۔انشاء اﷲ۔
اس برس میری شاعری کی رفتار دھیمی رہی تاہم میں نے تین غزلیں اور تین نظمیں کہیں۔جو ادبی رسائل میں چھپ چکی ہیں۔چند سیاسی نوعیت کی نظمیں اور افسانے بھی لکھے گئے لیکن ان کی ادبی حیثیت مجھے اچھی نہیں لگی۔مجھے لگا کہ ان پر صحافت غالب آگئی ہے اس لئے میں نے ان سب کو ضائع کر دیا۔عالمی حالات کے حوالے سے میں نے کچھ عرصہ سے جو کالم قسم کی چیزیں لکھنا شروع کی ہیں ان سے میرا کتھارسس ہوجاتا ہے ،یوں مجھے ادب اور صحافت کو الگ الگ رکھنے میں سہولت مل گئی ہے۔میری ساری صحافتی نوعیت کی سرگرمیاں www.urdustan.com پر مکمل فائل کی صورت میں دستیاب ہیں۔ میں نے ’’منظر اور پس منظر‘‘عنوان کے تحت ۲۵ کالم لکھے ہیں۔اس سال یہ فائل مکمل ہوئی۔اور یہ کتاب جلد ہی شائع ہونے والی ہے۔اگرچہ یہ کالم عالمی صورتحال پر میرے دکھ اور بے بسی کے احساس کے نتیجہ میں لکھے گئے ہیں،تاہم مجھے لگتا ہے کہ میرے بہت سے مندرجات کی اہمیت وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ واضح ہوتی جائے گی۔میں ۲۲؍جولائی ۲۰۰۲ء کو اس وقت اپنے کالم میں یورپی یونین کی طرز پر سارک یونین کے قیام کی ضرورت کا احساس دلا رہا تھا جب انڈو پاک ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس برس مجھے یہ دیکھنے کا موقعہ ملا کہ سارک کے سب سے بڑے ملک نے اس تصور کو سب کے سامنے رکھا اور اب سب اس کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔یقیناََ یہ ایک عمدہ پیش رفت ہے اور میرے لئے ذاتی طور پر بھی خوشی اور اطمینان کا باعث ہے۔ اسی طرح قلبِ اسلام کے حوالے سے میرے کالموں کے نتیجہ میں فوری طور پر اخبارات سے لے کر ٹی وی تک ایک تحرک پیدا ہوا لیکن تمام متعلقین پھر خوابِ خرگوش میں چلے گئے۔ آنے والے سنگین وقت میں میرے لکھے کو شاید پھر یاد کیا جائے۔اردوستان پر ہی میں نے خبرنامہ کی صورت میں خبروں پر ہلکے پھلکے تبصروں کا سلسلہ بھی شروع کیا۔اس سارے لکھے کا فائدہ یہ ہوا کہ میں فوری طور پر ہنگامی موضوعات کو مدِ نظر رکھ کر ادب میں صحافیانہ تحریریں پیش کرنے سے بچ گیا اور براہِ راست صحافت کے میدان میں اتر کر میں نے اپنے احساسات کو بہتر انداز سے بیان کر دیا۔
اس سال کی میری ادبی تحریروں میں یوں توساختیات اور ماہیا پر میرے مباحث اور چھ کتابوں پر تبصروں کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے، تاہم مجھے دو اہم مضامین لکھنے کی توفیق ملی۔’’تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اردو کا منظر‘‘ اور’’ماریشس میں عالمی اردو کانفرنس‘‘۔۔پہلا مضمون ماریشس کی اردو کانفرنس میں پڑھنے کے لئے لکھا گیا تھا اور دوسرا مضمون اس کانفرنس کی روداد تھا۔ماسکو میں اردو کی معروف خدمتگار ڈاکٹر لڈ میلا کے بقول میرا رپورتاژ پہلا آرٹیکل تھاجس کے ذریعے ماریشس کانفرنس کی تفصیلات انٹرنیٹ کے ذریعے ساری اردو دنیا تک پہنچیں۔
اس برس میرے فن کے حوالے سے منزہ یاسمین کے مقالے کے ساتھ براد رم نذر خلیق کی مرتب کردہ کتاب’’حیدر قریشی کی ادبی خدمات‘‘ بھی شائع ہوئی ۔ اسی برس مجھے جدید ادب کے از سر نو اجراء کا موقعہ ملا۔اور سال میں دو شمارے پیش کئے۔اس بار جدید اد ب کی پیش کش میں بعض نمایاں تبد یلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔سب سے اہم تبدیلی یہ رہی کہ یہ ادبی رسالہ کتابی صورت میں چھپنے کے ساتھ انٹرنیٹ پر بھی مکمل جریدہ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ویب سائٹ www.jadeedadab.com پرجدید ادب کا ہر شمارہ مستقل طور پر موجود رہے گا۔ ادبی رسائل کی دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی سب سے پہلی مکمل پیش کش ہے۔اس سلسلہ میں جہاں ریحانہ احمد،نذر خلیق اور عمر کیرانوی نے میرے ساتھ ادارتی ٹیم کا کام کیا ہے وہیں امریکہ میں مقیم اردوستان ڈاٹ کام کے کرتا دھرتا کاشف الہدیٰ نے ویب سائٹ کے قیام میں بہت بنیادی اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کے تعاون سے ہی جدید ادب کو انٹرنیٹ پر اتنی کامیابی سے پیش کیا جا سکا۔جدید ادب کے دو شمارے شائع ہونا اور ویب سائٹ پر دونوں شماروں کا بروقت آن ہوجانا میری عمر کے اِسی سال میں ہوا۔میری ٹیم کے باقی ارکان کے نام تو رسالہ پر موجود ہیں جبکہ کاشف الہدیٰ کی خوبی دیکھیں کہ اتنا سارا کام کرنے کے بعد بھی انہوں نے ادب کی خاموش خدمت کو ہی اپنا اجر مانا ہے۔اﷲ ان کو جزائے خیر دے۔
شروع میں ذکر کر چکا ہوں کہ اس برس میں نے اپنی دو کتب ’’منظر اور پس منظر‘‘اور سوئے حجاز‘‘(حج کی روداد کے اضافہ کے ساتھ)کو فائنل کیا۔ان کے ساتھ اپنی دو کلیات فائنل کی ہیں۔ شعری کلیات ’’غزلیں،نظمیں،ماہیے‘‘ کا پہلا ایڈیشن چار مجموعوں پر مشتمل تھا۔اب نیا ایڈیشن میرے پانچویں مجموعے سمیت شائع ہو سکے گا اور نثری کلیات ’’افسانے،خاکے،یادیں،انشائیے‘‘ بھی پانچ نثری مجموعوں پر مشتمل ہو گا۔اس سال ۱۲؍جنوری ۲۰۰۴ء کو میں نے دونوں کلیات کی پروف ریڈنگ کا جان لیوا کام مکمل کر لیا۔اب صرف ان زیر تحریر یادوں کو ’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘میں شامل کرنے کا کام باقی ہے۔مجموعی طور پر اس برس میں نے اپنی بارہ کتب کی پروف ریڈنگ کرنے کے ساتھ ان کی نوک پلک سنوارنے کا کام بھی کیا۔یہ اچھی خاصی مشقت تھی۔
اس سارے مطالعہ سے گزرتے ہوئے مجھے اپنی لکھی ہوئی کئی پرانی تحریریں نئے حالات کے تناظر میں بہت ہی تازہ دکھائی دیں۔ایسے لگتا ہے جیسے بیس پچیس سال پہلے کی تحریریں وجدان کی کسی ان جانی سطح سے لکھی گئی تھیں۔اس کے لئے مجھے تخلیقات میں سے متعدد مثالیں ملی ہیں یہاں صرف دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔
اس وقت ساری اسلامی دنیا عمومی طور پر اور پاکستان خصوصی طور جس قسم کے حالات سے دو چار ہے۔اندرونی اور بیرونی دونوں طور پر حالات اتنے تکلیف دہ ہیں کہ ایسے لگتا ہے ہمارے لئے کوئی راہِ نجات نہیں رہی۔اس صورتحال کو میرے ۱۹۸۰ء میں شائع ہونے والے ایک افسانے میں یوں دیکھا جا سکتا ہے:
’’مجھے عجیب سی بے بسی کا احساس ہوتاہے۔ بے چارگی اور مایوسی کے اندھیرے چاروں طرف رقص کررہے ہیں۔ یوں لگتاہے جیسے انہوں نے میرے اندر والے فنکارکو قتل کردیا ہے اور میں اپنی لامتناہی تلاش کے سفر میں ایک ایسے ٹیلے پر کھڑاہوں جس کے ایک طرف سربفلک دشوار گزار پہاڑ ہیں اور دوسری طرف گہراناقابل عبورسمندر۔ ایک طرف سینکڑوں اژدہوں اور عفریتوں کی پھنکاریں ہیں تودوسری طرف آبی بلاؤں کی چیخیں۔میں اپنے آپ کو پکارناچاہتاہوں مگر میری صدا بھی کہیں کھوگئی ہے۔۔۔۔۔تب میری تجرید کی ساری معنویت مجھ پر آشکار ہوتی ہے۔۔۔۔یہ معنویت اتنی گھناؤنی اور مکروہ ہے کہ میں کسی کو بھی اس سے آگاہ کرکے خوفزدہ نہیں کرناچاہتا۔ کیونکہ یہ معنویت صرف میری نہیں۔ ۔۔ہم سب کی ہے۔ شاید اسی لئے وہ مقدس آواز بھی اب نہیں آرہی ہے جس نے کہا تھا:’’خارجی دنیاکو بھی تمہارے اس کشف کا ادراک ہونا چاہیے!‘‘(افسانہ ’’اپنی تجرید کے کشف کا عذاب‘‘)
امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ذریعے اس وقت جو نام نہاد صلیبی جنگ شروع کی گئی ہے،اس کے دیگر مقاصد سے قطع نظر اگر اسے صرف صلیبی رنگ میں ہی لیا جائے تب بھی یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کی باہمی لڑائی ہے۔بنی اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد کی ایک شاخ ہیں جن سے یہودی اور مسیحی مذاہب نکلے۔۔۔جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت محمد ﷺ ہوئے جو دینِ اسلام کے بانی ہیں۔اس وقت امریکہ اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو مذہب کے ساتھ خاندانی سطح پر دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ اسحاق علیہ السلام کی اولاد اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے ساتھ وہی سوتیلا سلوک کر رہی ہے جو ماضی بعید میں ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے۔۔۔عام مسلمانوں کو عمومی طور پر علم نہیں ہے کہ مسیحی اور یہودی دنیا کی نظروں میں ہمارا شجرہ نسب کیا ہے ۔بائبل کی رُو سے بی بی ہاجرہ کی حیثیت بی بی سارہ کی لونڈی کی تھی۔اور وہ اسماعیل علیہ السلام کو لونڈی کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کی حقیقی اولاد میں شمار نہیں کرتے۔اسی سے ان کی ذہنیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ میں نے۱۹۸۲ء میں افسانہ لکھا تھا ’’میں انتظار کرتا ہوں‘‘۔سوتیلے جذبوں کی اذیت سہتے ہوئے اس افسانے میں تین اہم تاریخی کرداروں کو ایک کردار میں یکجا کیا گیا تھا۔ اس میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حوالے سے جو کچھ آیا تھا اس کی ہلکی سی جھلک یہاں دیکھ لیں۔۔باقی پورا افسانہ تو اپنے پورے تناظر میں ہی پڑھنے سے سمجھ میں آئے گا:


’’میری بے گناہی۔۔۔ میری نیکیاں دنیا نہیں دیکھتی اور میں تہمتوں کی زد میں ہوں۔
میں اذیت میں ہوں کہ میری ماں ابھی تک میری خاطر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔وہ جو بادشاہ زادی ہے۔ میرے سوتیلے بھائی اسے لونڈی اور مجھے لونڈی کا بیٹا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سوتیلے عزیز تاریخ کو جتنا چاہیں مسخ کر لیں مگر وہ میرے باپ کا نام کیونکر مٹا سکیں گے کہ پھروہ خود بھی بے شناخت ہو جائیں گے۔
میں ابراہیم کا بیٹا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ ابراہیم کے لئے گلزار ہوگئی تھی تو مجھے کیونکر نقصان پہنچاسکے گی۔
’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ یہ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔‘‘
یہ آسمانی آواز مجھے یقین دلاتی ہے کہ میری ایڑیوں کی رگڑ سے ایک چشمہ پھوٹ بہے گا اور اس کا پانی میری مدد کو آئے گا۔‘‘


اس نوعیت کے اتنے حوالے میرے سامنے آئے کہ انہیں پڑھتے ہوئے مجھے اپنی تخلیقات میں خود ایک انوکھے وجدان کا احساس ہوا۔شاید میں خود کبھی ایسے اشارات کو کسی مضمون کی صورت میں یکجا کر دوں جو اب تک کے حالات میں ظاہر ہو چکے ہیں۔شاید اسی کیفیت کو بھانپ کر جیلانی کامران صاحب نے میرے افسانوں کے حوالے سے لکھتے ہوئے اپنے تجزیہ کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا کہ
’’ان افسانوں میں ایک ایسا رویہ بھی شامل ہے جو کہانی سنتے ہوئے سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہانی محض کسی واقعے ہی کی بات نہیں کرتی بلکہ اس سچائی کا ذکر بھی کرتی ہے جو واقعیت کے رگ وریشے میں جاگتی ہے اور سب سے کہتی ہے کہ مجھے پہچانو، میں کون ہوں؟سچائی نے ہمارے زمانے میں افسانے کا لباس پہن رکھا ہے‘‘
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے ہم لوگ روایات کے نام پر ابھی تک ماضی سے چمٹے ہوئے ہیں ،ماضی سے جُڑ کر رہنا کوئی بری بات نہیں اگر آپ اس کے ساتھ حال سے باخبر رہتے ہوئے مستقبل کی طرف بھی قدم بڑھاتے رہیں۔ایک بہت ہی ہلکی پھلکی سی ذاتی واردات یاد آگئی۔میں ایک بار انٹر نیٹ پر بیٹھا ہوا ایک ویب سائٹ سے اپنی پسند کا گانا’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سن کر کچھ جذباتی بھی ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ آئی ہوئی ای میلز کے جواب بھی دیتا جا رہا تھا۔اپنے اس عمل سے میں نے بعد میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ماضی سے کٹ کر نہیں رہنا لیکن ماضی کے چکر میں حال اور مستقبل سے غافل ہوجانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اخلاقی قدریں بھی دو طرح کی ہیں ایک تو وہ جن کی حیثیت مستقل نوعیت کی ہے،دوسری وہ جو زمانے کے ساتھ بدلتی جاتی ہیں۔مثلاََ ایک طویل دور تک سینہ تان کر لڑنا اور سینے پر زخم کھانا بہادری کی علامت تھا۔اب ہولناک بموں کے دور میں ایسا کرنا بہادری نہیں بلکہ سیدھی سی بے وقوفی ہے۔ایک قدر جو ہمارے بچپن تک بہت اہم رہی یہ تھی ’’پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب۔جو کھیلو گے ،کودو گے ،ہوگے خراب‘‘۔آج کے دور میں سپورٹس کے سٹارز کی جو حیثیت ہے اور ان کے مقابلہ میں بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والوں کی جو بے توقیری ہے،اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بہت سی قدریں کس حد تک بدل کر رہ گئی ہیں۔ بہر حال وقت کی رفتار تو اپنے بہاؤ میں رہتی ہے۔
جدید دور کی سب سے اہم اور عام ایجادکمپیوٹر ہے۔پچاس سال سے اوپر کی عمر کے بہت کم لوگ ہوں گے جو میری طرح اس ٹیکنالوجی سے بنیادی واقفیت نہ رکھنے کے باوجود اس ایجاد سے بہت زیادہ منسلک ہوں۔ میری کمپیوٹر سے دوستی بہت گہری ہو چکی ہے۔ اتنی گہری کہ اس نے قلم اور کاغذ سے میرا عمر بھر کا تعلق بڑی حد تک ختم کرکے رکھ دیا ہے۔میں جو چند برس پہلے تک دن میں بیس پچیس خطوط آسانی سے لکھ لیا کرتا تھا۔اب قلم پکڑنا بھی بھول گیا ہوں۔کمپیوٹر پر میرا اردو پروگرام اتنا موثر ہے کہ میں ساری خط و کتابت اسی کے ذریعے کرتا ہوں۔اس اردو فائل کو پھر ان پیج فائل میں یا گف فائل میں ای میل سے بھیج دینا میرے لئے سیکنڈوں کا کام بن گیا ہے۔پوری کتاب یا رسالے کی فائل ایک ای میل سے میرے پاس پہنچ جاتی ہے اور ایک کلک سے میں اسے بیک وقت کئی دوستوں تک پہنچا سکتا ہوں۔
اب میرے زیادہ تر دوست وہی ہیں جو کسی نہ کسی طرح انٹر نیٹ سے منسلک ہو گئے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں نے سابقہ دوستوں کو فراموش کر دیا ہے۔ان سب کو یاد کرتا رہتا ہوں لیکن ان سے اب خط و کتابت والا تعلق موثر طور پر برقرار نہیں رکھ سکتا۔اس وجہ سے بہت سے دوست مجھ سے شاکی ہیں اور ان کی شکایت بجا ہے۔لیکن کیا کروں کمپیوٹر نے مجھے اسیر کر لیا ہے۔اہم ادباء میں وزیر آغا،جوگندر پال،فتح محمد ملک،شمس الرحمن فاروقی،شمیم حنفی اور ان کی اہلیہ صبا حنفی ،الطاف احمد اعظمی،رشید امجد، صلاح الدین پرویز،سلطان جمیل نسیم ،داؤد رضوان،منظر حسین،ڈاکٹر شفیق،ڈاکٹر انور صابر،منزہ یاسمین،مرتضیٰ اشعر، فیصل ہاشمی ،رفعت مرتضیٰ اور سنجئے گوڑ بولے سے کبھی کبھار ای میل سے رابطہ ہو جاتا ہے۔ منشا یاد،امین خیال ،اسلم بدر،کرشن مہیشوری،احمد سہیل، سعادت سعید،عارف فرہاد،وسیم عالم،ارباب بزمی،ارشد خالد،رؤف خیر،صفدر ہمدانی ،جواز جعفری سے بھی وقتاََ فوقتاََ رابطہ رہتا ہے۔یوں تبسم کاشمیری،ڈاکٹر لڈمیلا ،فاروق باؤچہ اور متعدد دیگرشعراء و ادباء بھی رابطہ میں رہتے ہیں۔ اکبر حمیدی نے بھی ایک دو بار منشا یاد کے توسط سے ای میل سے رابطہ کیا ہے۔یقیناََ اور بھی کئی دوست رابطے میں رہتے ہیں اور میں فی الوقت ان کے نام بھول رہا ہوں۔’یاہو ‘یا ’ہاٹ میل ‘پر چیٹنگ کرتے ہوئے بھی کئی ادبی دوستوں سے گپ شپ رہی ہے۔بعض دوستوں کے ساتھ ویب کیمرے کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے۔یعنی ہم دونوں ایک دوسرے کو Live دیکھ رہے ہوتے ہیں اور گفتگو بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ سو یوں مجھے انٹر نیٹ پر ادبی دوستوں کی ایک بھری پری محفل ملی ہوئی ہے۔اس وقت میرے بے حد قریبی حلقہ میں خورشید اقبال،کاشف الہدیٰ،نذر خلیق،سعید شباب،ریحانہ احمد، عاصمہ خان اور عمر کیرانوی شامل ہیں ۔
چند دن پہلے میرے ایک کرم فرما مسعودہاشمی صاحب تشریف لائے اور بتانے لگے کہ سال ۲۰۲۵ء تک دنیا ایٹمی جنگ سے تباہ ہو جائے گی۔میں نے انہیں کہا کہ دنیا تباہ نہیں ہونی چاہئے ، کیونکہ میں اس جنگ کے باوجود زندہ بچ جاؤں گا لیکن پھر محض کمپیوٹر نہ ہونے کی وجہ سے مر جاؤں گا۔اگرچہ یہ بات مزاح کے رنگ میں کہی گئی تھی لیکن واقعی کمپیوٹر میری بہت بڑی ضرورت اور اس سے بھی بڑی کمزوری بن گیا ہے۔پاکستان،انڈیا، امریکہ،کنیڈا، روس، فرانس، برطانیہ، ترکی، آسٹریلیا،جاپان تک پھیلے ہوئے میرے سارے ادبی دوست کمپیوٹر کی بدولت مجھ سے صرف ایک ہلکی سی کلک کے فاصلے پر ہیں اور میں ان سے جب چاہوں رابطہ کر لیتا ہوں۔اتنا برق رفتار،اتنا سستا اور اتنا موثر رابطہ جو پرانی داستانوں میں محض کہانی کے طور پر آتا تھا میرے عہد کی ایک حقیقت بن کر میرے تجربے میں آرہا ہے۔
اردو میں لکھنے کا کوئی کام ہو میں کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے اطمینان سے کر لیتا ہوں۔دن میں کتنی ہی ای میلز آتی ہیں اور اسی وقت ان کا جواب میری طرف سے چلا جاتا ہے۔میری ان مصروفیات کی وجہ سے میری بیوی نے میرے کمپیوٹر کے کمرے کو ’’سوتن کا کمرہ‘‘کہنا شروع کر دیا ہے۔ای میلز اور چیٹنگ کے تعلق سے جتنا کچھ لکھ چکا ہوں اسی حوالے سے یہاں صرف آج ۱۳؍جنوری ۲۰۰۴ء کو موصول ہونے والی ای میلز بھیجنے والے احباب کے نام لکھ دیتا ہوں۔عمر کیرا نوی (دہلی) ، نذر خلیق(خانپور)،ریحانہ احمد(کنیڈا)،بشارت احمد استاد (گلبرگہ) ، ناصر عباس نیر(جھنگ)، ترنم ریاض(دہلی)،دانش طاہر(کراچی)،علی اختر رانا(لاہور)،عارف فرہاد(راولپنڈی۔آف لائن میسج)،ایک رائٹرز فورم کی ٹریش قسم کی چار پانچ ای میلزاور بعض کمپنیوں کی اشتہاری ای میلز میں نے کھولے بغیر ضائع کر دیں۔
آج ہی ان دوستوں سے براہِ راست چیٹنگ ہوئی۔ناصرعباس نیر (جھنگ)، سلمان (ڈاکٹرشفیق احمد کا صاحبزادہ،بھاولپور) ، لقمان (میرا بھانجہ، کراچی)، دانش (میرابھتیجہ،کراچی ) ریحانہ احمد(کینیڈا)، نادرہ سلطانہ(امریکہ)۔
کمپیوٹر سے اتنی وابستگی کے باوجودمیری ایک کمزوری کسی حد تک تکلیف کا باعث بھی ہے۔میں نے ٹائپ رائٹنگ نہیں سیکھی ہوئی،اس لئے دس انگلیوں کے بجائے صرف دو انگلیوں سے کام کرتا ہوں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دونوں بازؤںں کی کہنیوں میں تکلیف ہوتی رہتی ہے۔         انگلیوں سے درد اٹھا،کہنیوں تک آگیا
لیکن ادب سے وابستگی ،اور بیک وقت تینوں زمانوں سے جڑے رہنے کا جنون ابھی تک کسی تکلیف کو خاطر میں نہیں لا رہا۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایات ’’دمبدم‘‘
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
یہ میرے گزشتہ برس کی یادوں کی ایک جھلک تھی۔۔۔۔ایسی یادیں جومجھے اپنے حال سے باخبر اور مستقبل پر نظر رکھنے کی قوت دیتی ہیں۔
***
نوٹ:ان یادوں کو لکھنے کے بعد یاد آیا کہ ان اہم دوستوں کے ساتھ بھی کبھی کبھار انٹرنیٹ سے رابطہ رہتا ہے۔شان الحق حقی، احمد ہمیش، انجلا ہمیش، مسعود منور،رحیم انجان،ڈاکٹر کرسٹینا ،ارشاد ہاشمی ،حمید شاہد،ہارون عباس اورقمر علی عباسی۔۔۔یقیناََ ابھی اور بھی کئی نام ہیں جو فوری طور پر یاد نہیں آرہے۔
***موجودہ ایڈیشن کی اشاعت تک ان دوستوں کے ناموں میں بے شمار حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ (حیدر قریشی)

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen