Freitag, 15. Juli 2011

کزنز

کزنز

میرے چچازاد اور پھوپھی زاد بھائی بہن نہیں ہیں۔خالہ زاد بھائی بہنوں میں صرف خالہ سعیدہ کی دو بیٹیاں صالحہ اور نعیمہ میرے ایج گروپ میں آتی ہیں۔خالہ حبیبہ کے بیٹے‘بیٹی عمر کے لحاظ سے مجھ سے بہت چھوٹے ہیں۔سو اُن سے محبت کا تعلق تو ہے لیکن دوستانہ بے تکلفی والی بات نہیں ہے۔میرے تین ماموں زاد صحیح معنوں میں میرے ایج گروپ کے ہیں۔کریم اﷲ ‘مجیداﷲ اور مبشّر۔۔۔۔کریم اﷲ ‘مجیداﷲ جڑواں بھائی ہیں اور بڑے ماموں کے بیٹے ہیں۔مبشّر میری بیوی کا بھائی اور ماموں ناصر کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ماموں کوثر کا بیٹا شکور اگرچہ عمر میں مجھ سے پانچ سال چھوٹا تھا لیکن بے تکلفی میں سب سے آگے تھا۔باقی ماموں زاد اور خالہ زاد یا تو عمر میں مجھ سے بہت بڑے ہیں یا بہت چھوٹے۔اسی لئے ان کے معاملے میں احترام یا شفقت کا ایک پردہ حائل ہے۔اپنی ماموں زاد آپی نعیمہ سے بچپن میں میری گہری دوستی تھی۔صالحہ اور نعیمہ دونوں میری کھوئی ہوئی کزنز ہیں۔خالہ سعید ہ ہالینڈ میں مقیم تھیں۔وہاں ان کی اپنے شوہر سے ناچاقی ہو گئی۔معاملہ بڑھا تو دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔خالہ سعیدہ غم و غصہ کی حالت میں دونوں بیٹیوں صالحہ اور نعیمہ کو بھی ان کے والد ڈاکٹر غلام احمد بشیرؔ صاحب کے پاس چھوڑ آئیں۔صالحہ اور نعیمہ کو ان کے والد ڈاکٹر غلام احمد بشیرؔ اور ان کی دوسری(ڈچ)بیوی نے پالا پوسا۔ وہ دونوں فوت ہو گئے۔صالحہ اور نعیمہ کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہ ہوسکا۔جرمنی آنے کے معاََبعد سے مسلسل کوشش کر رہا ہوں۔ابھی تک کوئی واضح سراغ نہیں مل سکا ۔دنیا امید پر قائم ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ہم بچپن کے بچھڑے ہوئے کزنز ایک بار ضرور آمنے سامنے ہوں گے۔چاہے یہ آمنا سامنا بڑھاپے کی سرحدپر ہی کیوں نہ ہو۔*۱
مجھے یقین ہے کہ جب بھی ہماری ملاقات ہوئی صالحہ کو یاد آجائے گاکہ مکئی کے کھائے ہوئے سِٹّے کو توڑ کر اور اس میں چڑیوں اور کبوتروں کے پروں کو ٹھونس کر وہ کیسی عمدہ شٹل بنایا کرتی اور ہم دونوں ریکٹ کے طور پر اسکول کی تختیوں کو استعمال کرتے ہوئے اس شٹل سے اپنی دیسی بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے۔نعیمہ کو اور کچھ یاد آئے نہ آئے لیکن یہ تو ضرور یاد آئے گا کہ اسے بچپن میں مٹی کھانے کا شوق تھا جبکہ آپی‘میں اور صالحہ خدائی فوجدار کی طرح اس کی تاک میں رہتے تھے ۔ایک بار اس نے بڑی عقلمندی سے کام لیاتھا۔ہمسایوں کی کچی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی۔پہلے اِدھر اُدھر دیکھتی پھر بڑی مہارت کے ساتھ دیوار کی طرف منہ کرکے کچی مٹی کی دیوار کو چاٹ لیتی۔اس کی تمام تر مہارت کے باوجود میں نے اس کی چوری پکڑلی تھی۔اور پھر حسبِ معمول صالحہ ‘آپی اورمیں۔۔۔۔۔۔۔ہم تینوں نعیمہ کو ٹانگوں اور بازوؤں سے اٹھائے ہوئے گھر لئے جا رہے تھے جہاں لازماََ اسے خالہ سعیدہ سے ڈانٹ پڑنی تھی۔ایک عرصہ کے بعد رشید احمد صدیقی کا پُر لطف مضمون ’’میرا بچپن‘‘پڑھا تو شگفتگی کے تمام تر احساس کے باوجود میں اداس ہو گیا۔مجھے صالحہ اور نعیمہ دونوں خالہ زاد بہنیں بہت یاد آئیں۔
کریم اﷲ ‘ مجیداﷲ مجھ سے سوا سال بڑے ہیں جبکہ مبشّر مجھ سے ایک سال چھوٹاہے۔بچپن میں ہی مبشّر کی دوستیاں بڑی عمر کے لوگوں سے زیادہ ہوتی تھیں۔لڑائی بھڑائی میں بھی وہ تیز تھا۔میں جسمانی لڑائی میں ہمیشہ سے پھسڈی ہوں۔کریم اﷲ‘ مجیداﷲ تو اس معاملے میں میرے بھی بڑے بھائی ہیں۔جڑواں بھائی ہونے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ وابستہ تھے۔اب تو خیر ان کی شکلیں صاف پہچانی جاتی ہیں لیکن بچپن میں تو انہیں پہچاننے میں اچھے اچھوں کو مغالطہ ہو جاتاتھا۔ اباجی نے کئی بار دونوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔کافی غور سے دونوں کے چہرے دیکھنے کے بعد جب اباجی ایک کو کریم اﷲ کہتے تو وہ مجیداﷲ نکلتااور جسے مجیداﷲ کہتے وہ کریم اﷲ نکلتا۔دونوں کو پہچان نہ پانے پراباجی پھر خود ہی ہنسنے لگ جاتے۔ ایک بار اباجی نے کسی شناخت کی بنیاد پر نہیں بلکہ تُکے سے ٹھیک نام بتا دیا کہ تم کریم اﷲ ہو تب کریم اﷲ نے بڑی مہارت سے کہہ دیا :نہیں پھوپھا جان میں تو مجیداﷲ ہوں۔اور اباجی انہیں پہچان نہ پانے پر ہمیشہ کی طرح ہنسنے لگے۔
بچپن میں میرا کسی سے جھگڑا ہوجاتا تو میں عام طور پر مبشّر کو مدد کے لئے بُلا لاتا تھا۔ایک بار پتہ نہیں کس بات پر میرا کریم اﷲ اور مجیداﷲ سے جھگڑا ہو گیا۔وہ دوبھائی‘میں اکیلا۔۔۔اتفاق سے مبشّر نے دور سے ہی یہ منظر دیکھااور از خود لپکا چلاآیا۔ آتے ہی اس نے دخل در معقولات کرتے ہوئے مجیداﷲ کو پکڑا اور اس کا سر ریت میں گھِسانے لگا‘اور مجھے بھی ہدایت کی کہ صرف مجیداﷲ پر ہی سارا زور لگاؤں۔اوپر سے کریم اﷲ ہم دونوں کو مار رہا تھا لیکن مبشّر یہی کہے جارہا تھا کہ مجیداﷲ پر ہی سارا زور لگاؤں۔۔۔۔۔ہم دونوں کے زور کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجیداﷲ نے رونا شروع کردیا۔مجیداﷲ کے روتے ہی کریم اﷲ نے نہ صرف ہمیں مارنا چھوڑ دیا بلکہ خود بھی رونے لگ گیا۔تب مجھے اندازہ ہوا کہ مبشّر صرف ایک ہی بھائی پر سارا دباؤ کیوں ڈال رہا تھا۔جڑواں بچوں کی محبت کا یہ بھی انوکھا رنگ تھا۔
مبشّرکی ’’پھوں پھاں‘‘ اور ’’ٹَے کا‘‘ بہت تھا اسی لئے اس کی دوستی سے مجھے فائدہ ہوجاتا تھا۔ایک بار پتہ نہیں کس بات پر ہمارا جھگڑا ہو گیا۔مبشّر نے پَتری کا ایک ننھا منّا سا چاقو مجھ پر تان لیا۔ میں نے وہیں سے دوڑ لگائی اور ناناجی کو جاکر بتایا کہ مبشّر مجھے چاقو مارنے لگا تھا۔ناناجی نے فوری کاروائی کے لئے ماموں سمیع اﷲ کو بھیجا۔ماموں سمیع نے آکر مبشّر کو ایک چپت رسید کی تو وہ کہنے لگا کہ میں تو صرف ڈرا رہا تھا۔ اس چاقو کی ’’خوفناکی‘‘ کااندازہ اس سے لگا لیں کہ ماموں سمیع نے اسی وقت مبشّر سے لے کر‘ انگلیوں سے مروڑ تروڑ کراسے دور پھینک دیا تھا۔
چھوٹے کزنز میں سے خالہ سعیدہ کی دوسری شادی سے ہونے والی پہلی بیٹی زاہدہ‘ماموں ناصر کی غزالہ‘ ماموں سمیع کی نوشی‘ ماموں صادق کی سمیرہ اور خالہ حبیبہ کا آصف مجھے زیادہ عزیز رہے ہیں۔ زاہدہ میرے چھوٹے بھائی اکبر سے بیاہی گئی اور میری چھوٹی بہن زبیدہ کی شادی کریم اﷲ سے ہوئی۔سمیرہ اور آصف مجھے اس لئے بھی عزیز رہے کہ دونوں نے کبھی شاعری شروع کی تھی۔ماموں صادق خود ایک عرصہ تک شاعری کرتے رہے تھے۔اس لئے مجھے لگتا تھا کہ سمیرا ماموں صادق کا شاعری کا ورثہ ضرور سنبھالے گی۔لیکن وہ تو کمپیوٹر ایکسپرٹ بن گئی۔شاعری کہیں بیچ میں ہی رہ گئی۔آصف کی شاعری سے عطا ء اﷲ خاں نیازی عیسیٰ خیلوی کی گلوکاری کی طرف دھیان جاتا تھا۔لیکن ابتدا میں ایسا ہونا بھی غنیمت تھا۔کچھ عرصہ تک آصف کو شاعری کا شوق رہا پھر اس کا بھی پتہ نہیں چلا۔
ماموں ناصر کی سب سے چھوٹی بیٹی بشریٰ ہما کو بیک وقت شاعری اور گلوکاری کا شوق ہے۔ایک دفعہ اس نے مجھے اور مبارکہ کو لتا جی کے چند گانے سنائے۔گانے سُن کر میں حیران رہ گیا۔بشریٰ نے بڑے اچھے انداز میں لتا جی کے گانے سنائے تھے لیکن میری حیرت کا پس منظر کچھ اور تھا۔دراصل ممانی آصفہ نے گھر کا ماحول بے حد مذہبی بنا یا ہواتھا ۔ٹیلی ویژن صرف ان اوقات میں آن کیا جاتا تھاجب اس پر تلاوت‘اذان‘ کوئی دینی پروگرام یا پھر خبر نامہ آرہا ہو۔ایسے ماحول میں بشریٰ نے اتنے گانے کیسے یاد کر لئے اور اپنی آواز میں اتنی پختگی کیسے پیدا کرلی؟میں نے اپنی حیرت کو چھپائے بغیر سیدھا سوال کر دیا تو بشریٰ نے شرماتے ہوئے بتایا۔۔۔بھائی جان!وہ اصل میں ناں ۔۔ ۔ وہ جب ٹی وی پر اذان لگتی تھی تو میں اذان کے ساتھ اپنی آواز اٹھاتی تھی اس طرح آواز پر گرفت ہوتی گئی۔پھر جب باجی غزالہ جرمنی چلی گئیں تو وہ اپنا چھوٹا ٹیپ ریکارڈرمجھے دے گئیں۔اس میں مہندر کپور کے گانوں کی ایک کیسٹ تھی۔اس کیسٹ میں وہ گانا بھی تھا’’نہ منہ چھُپا کے جیؤ اور نہ سر جھُکا کے جیؤ‘‘۔جب امی گھر پر نہیں ہوتی تھیں تو میں اسی گانے پر آواز اُٹھانے کی پریکٹس کرتی تھی۔یوں اب گانے کا شوق پورا کر لیتی ہوں لیکن امی سے چوری چھُپے۔آپ بھی امی کو نہیں بتائیے گا۔ان کے سامنے تو میں صرف دینی نظمیں سُر کے ساتھ پڑھتی ہوں۔
ماموں صادق کابیٹااویس میرے بڑے بچوں کے ایج گروپ کا ہے۔گزشتہ تین برس سے امریکی آرمی کی طرف سے اس کی جرمنی میں تعیناتی ہوئی تو اس سے بھی تھوڑی سی دوستی ہوگئی۔اس کے بچپن اور اپنے ’’عالمِ شباب‘‘کا ایک لطیفہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔میں خانپور سے کراچی گیا۔قیام ماموں صادق کے ہاں تھا۔اویس پانچ‘چھ سال کا تھا۔مجھے کافی دیر تک دیکھتا رہا ۔پھر میرے قریب آ کرکہنے لگا:بھائی! آپ ہیں تو آدمی ‘پر لگتے نہیں ہیں ۔میں اس کے جملے کی سادگی کا مزہ لے رہا تھا کہ ماموں صادق کہنے لگے : یار!تم شادی شدہ ہونے کے باوجود لڑکے ہی لگتے ہو۔اویس کی دانشمندی دیکھو کہ اس نے لڑکے میں چھُپے ہوئے مرد کو کیسے پہچان لیا ہے۔ماموں صادق کی وضاحت کے باوجود مجھے اویس کے جملے کی سادگی مزہ دیتی رہی۔اب جرمنی میں اویس آیا تو میں نے اسے اس کی بات یاد دلائی۔
غالب ؔ کو یہ گِلہ رہا کہ ’’آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا‘‘۔لیکن اب تو وہ زمانہ آگیا ہے کہ آدمی کو آدمی ہونا بھی میسّر نہیں ہے‘ آدمی یا تو روبوٹ بن گیا ہے یا جانور۔۔۔۔۔اویس کے آنے کے بعدایک بار میں شیو کر کے فارغ ہوا اور آئینے میں خود کو دیکھنے لگا تو مجھے اپنے ہی اندرسے آواز آئی:لگتے تم آدمی ہو ‘پر ہو نہیں۔
پتہ نہیں یہ میری اپنی آواز تھی
آدم کی روح کی آواز تھی
یا پھر روحِ کائنات کی !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*یادوں کا یہ حصہ دو ماہی’’گلبن‘‘احمد آباد کے شمارہ مئی ‘جون۱۹۹۹ء میں شائع ہوا تھا۔اسی مہینے میرا نعیمہ سے رابطہ ہوا۔پھر مبارکہ‘مانو‘اور میں ہم تینوں ہالینڈ گئے۔نعیمہ نے واضح کردیا کہ صالحہ اپنے کسی رشتہ دار سے ملنا نہیں چاہتی۔نعیمہ‘اس کے ڈچ شوہر اور دو پیارے سے بچوں نے ہمارا اچھا سواگت کیا۔ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ خالہ سعیدہ کی دونوں بیٹیاں(ماں کی کمی کے علاوہ)ہر طرح سے خوش و خرّم ہیں۔نعیمہ کی بیٹی نے تھوڑا سا دکھ کا اظہار کیا کہ میری ماں اپنی ماں کے سائے میں پلتی تو اچھا تھا۔تب میں نے اسے کہا شکر کروایسا نہیں ہوا ‘ورنہ تم دنیا میں ہی نہ آتیں اور نعیمہ‘صالحہ سرگودھا کے چک ۶۴ میں اُپلے تھاپ رہی ہوتیں۔میں نے یہ بات تو آسانی سے بتادی لیکن اُپلوں کے بارے میں سمجھانے میں خاصی مشکل پیش آئی۔ بعد میں نعیمہ نے بتایا کہ صالحہ نے مجھے اَلٹی میٹم دے دیا ہے کہ یا تو نئے دریافت ہونے والوں سے رشتہ داری رکھو‘ یا مجھ سے۔چنانچہ پھر یہ تعلق ٹوٹ گیا۔تاہم اس ملاقات سے جب یہ واضح ہوا کہ نعیمہ کی پاکستان سے روانگی کے وقت میری عمر صرف تین سال تھی تو مجھے اپنی یادداشت پر شدید حیرت ہوئی۔ایک بار پہلے بھی میں نے ماموں ناصر کو اپنے بچپن کے زمانے کی ایک بات کے بارے میں تھوڑا سا بتایا تھا۔وہ بات ایسی تھی کہ کوئی بزرگ اپنے بچوں سے ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔لیکن بات دلچسپ تھی۔ماموں ناصر میری بات سُن کر جیسے سنّاٹے میں آگئے۔پھر مسکرا کر کہنے لگے تمہارا دماغ شیطان کا دماغ ہے۔تب تم صرف ساڑھے تین سال کے تھے۔میرا خیال ہے اس کا تعلق حافظے سے زیادہ یاد سے وابستگی سے ہے۔کہیں کوئی بات حافظے سے چِپک جاتی ہے اور بس۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen