Freitag, 15. Juli 2011

ددھیال کے رشتہ دار

ددھیال کے رشتہ دار

میرے ددھیال میں ابا جی اور بابا جی صرف دو ہی بھائی تھے‘بہن کوئی نہ تھی‘سو ہماری کوئی پھوپھی نہ تھیں۔تاہم ابا جی اور بابا جی کی دو کزنز تھیں۔بُوا حیات خاتوں اور بُوا لال خاتوں۔دونوں سے ہمیں پھوپھیوں کا اتنا پیار ملا کہ کسی حد تک پھوپھیوں کی عدم موجودگی کی تلافی ہوگئی۔بُوا حیات خاتوں چاچڑاں شریف میں بیاہی ہوئی تھیں۔ہمارے رحیم یار خاں میں قیام کے دوران ‘اور پھر خانپور میں قیام کے دوران بھی ان کا ہمارے ہاں مسلسل آنا جانا رہا۔ان کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔مجھے امی جی کے بعد بچپن میں سب سے زیادہ کہانیاں بُواحیات خاتوں نے سُنائیں۔ان کی کہانیوں میں انسانوں ‘پرندوں اورجانوروں کے کردار مل جل کر رہتے تھے۔
بُوڑھی مائی نے کوّے سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چڑیا شہزادے سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کہانی جو مجھے آج بھی بہت اچھی طرح یاد ہے اس میں تو چُوہا‘بلّی‘کتّا‘ڈانگ‘آگ‘چھوٹی نہر‘بڑی نہر‘درخت۔۔۔۔یہ ساری چیزیں بھی باتیں کرتی تھیں۔شاید ایسی کہانیاں انسان اور فطرت میں مغائرت سے پہلے کے ‘پرانے زمانے کی یادوں کی بازگشت ہوتی ہیں جو کچھ ہمارے شعور میں اور کچھ لا شعور میں ہمیں ورثہ در ورثہ ملتی رہتی ہیں۔
بوا حیات خاتوں بڑھاپے میں بھی بے حد خوبصورت تھیں۔ذہین لیکن دل کی سادہ۔۔۔زمانے کی رفتار پر حیران لیکن اس کے حیرت انگیز ارتقا کو جانتی بھی تھیں اور مانتی بھی تھیں۔ان کے بر عکس بُوا لال خاتوں بہت ہی بھولی بھالی تھیں۔بُوا لال خاتوں کوٹ شہباز میں بیاہی ہوئی تھیں۔کوٹ شہباز قریشیوں کی اپنی بستی ہے۔پہلے تو ایک ہی بڑی ساری حویلی تھی جس کے اندر سب کے اپنے اپنے گھر تھے۔اب حویلی سے باہر بھی مکانات کی تعمیر ہوگئی ہے تاہم اصل حویلی ابھی بھی قائم ہے۔۔۔اگررحیم یارخاں سے ظاہر پِیر کی طرف جائیں تو رستے میں
’’ شیخ واہن ‘‘کا اسٹاپ آتا ہے۔یہاں سے اندازاََ دو میل کے فاصلے پر’’ کوٹ شہباز‘‘ہے۔
بچپن میں ہم نے جب بھی کوٹ شہباز جانا ہونا تھا شیخ واہن کے بس اڈے پر ہمیشہ پہلے سے ایک تانگہ موجود ہوتا تھاجو ہمیں کوٹ شہباز لے جاتا تھا۔معروف سیاستدان مخدوم حمیدالدین ہاشمی اور مخدوم نور محمد ہاشمی صاحبان کا گاؤں ’’میانوالی قریشیاں‘‘کوٹ شہباز سے آٹھ دس میل کے فاصلے پر ہے۔دونوں بستیوں میں قریشی برادری کا رشتہ تھا۔شادی اور مَرگ پر آنا جانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر بات ہو رہی تھی بُوا لال خاتوں کے بھولپن کی۔کسی عزیز کی بیماری کے باعث بُوا رحیم یارخاں آئیں۔ہسپتال میں عیادت کے لئے گئیں۔یہ ۶۰۔۱۹۵۹ء کی بات ہے۔ہسپتال میں مریض کے قریب ایک پیڈسٹل فین رکھا ہوا تھا جو دائیں‘بائیں گھوم رہا تھا۔بُوا لال خاتوں نے ایک دو بار یہ منظر حیرت سے دیکھا پھر خوفزدہ ہو کر کہنے لگیں:
یہ کیا اَسرار ہے؟یہ تو کوئی طلسماتی شے ہے۔خود بخود کبھی اِس طرف ہوا دینے لگتی ہے کبھی اُس طرف ہوا دینے لگتی ہے۔۔۔۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی رحیم یار خاں میں ہمارے گھر میں بھی بجلی نہیں آئی تھی۔لکڑی کے تختے سے بھاری بھرکم کپڑا لٹکا کراسے چھت پر لٹکا دیا جاتا تھا ۔تختے سے ایک مضبوط ڈوری باندھی جاتی پھر اسے ایک چرخی سے گزار کر کھینچا جاتا۔بجلی آنے سے پہلے ایسے پنکھے ہوا کرتے تھے۔کوٹ شہباز میں بھی ایسے ہی پنکھے تھے۔اب تو کوٹ شہباز بھی بجلی کی برکتوں سے فیض یاب ہو رہا ہے۔
بُوا لال خاتوں پہلی بار لاہور گئیں۔ایک تو لاہور ریلوے اسٹیشن کی پُر شکوہ عمارت‘پھر ہجومِ خلق ۔اوراس ہجوم میں سُرخ وردی میں ملبوس قلیوں کی فوج ظفر موج۔اوپر سے قلیوں کا ’فرطِ محبت ‘سے سامان اُٹھانے میں سبقت لے جانے کی کوشش‘اور اس کوشش میں سامان کی کھینچا تانی۔۔۔۔بُوا لال خاتوں نے سمجھا ڈاکوؤں نے ہَلّہ بول دیا ہے۔چنانچہ انہوں نے بچاؤ۔۔۔بچاؤ ۔۔۔کا شور مچا دیا۔
یہ بھولپن تو سن پچاس اور ساٹھ کے درمیانی عرصہ کا ہے۔اَسّی کی دَہائی میں جبکہ گھر گھر ٹی وی پہنچ چکا تھا‘اس زمانے میں بھی بھولے بھالے لوگ مل جاتے تھے۔خانپور میں مبارکہ کی ایک سہیلی تھی سعیدہ۔۔۔سعیدہ کی والدہ کنیز بی بی نے ساری زندگی فلم نہیں دیکھی تھی۔ان کے گھر ٹی وی آیا تو ماسی کنیز نے ٹی وی پر مَردوں کو دیکھ کر پردہ کر لیا تاکہ ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والے مَرد انہیں بے پردہ نہ دیکھ لیں۔ سعیدہ اور ماسی کنیز ابھی بھی خانپور میں مقیم ہیں۔اﷲ انہیں خوش رکھے۔۔۔۔۔۔ہمارا معاشرہ جب تک ایسے معصوم لوگوں سے بسا ہوا تھا تب تک قناعت پسند اور آسودہ تھا۔علم کی برکات سے انکار نہیں لیکن جب سے ہمارے معاشرے میں معصومیت کی جگہ چالاکی آ گئی ہے‘قناعت کی جگہ حرص نے لے لی ہے۔رزق کی فراوانی کے باوجود معاشرہ بے سکون اور بے چَین ہے۔اس کے ذمہ دار بلا امتیاز ہم سب ہیں۔
کوٹ شہباز کے اہلِ قریش رحیم یار خاں جب بھی آتے‘ ہمارے ہاں قیام کرتے۔ خانپور میں بھی ہمارا گھر ان کے قیام کا مرکز رہا ۔رحیم یار خاں میں رہائش کے دنوں کی بات ہے میرا چھوٹا بھائی اکبر (جو اَب لندن میں مقیم ہے)گھر کے صحن میں بیٹھا مٹی سے کھیل رہا تھا۔تب اس کی عمر چار سال کے لگ بھگ تھی۔کھیلتے کھیلتے اچانک چونک کربولا:’’اوہ!‘‘ امی جی اس کی طرف متوجہ ہوئیں تو کہنے لگا :کوٹ شہباز والے آرہے ہیں۔۔۔۔امی جی نے خیال کیا کہ بچے کو بعض عزیزوں کا خیال آگیا ہوگااس لئے ایسی بات کردی ہے۔کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد اکبر نے پھر ویسی ہی ’’اوہ!‘‘کی اور پھر بتانے لگا:ان کی جیپ خراب ہوگئی ہے۔امی جی تو ابا جی کی بزرگی اور روحانیت سے بھی الجھتی رہتی تھیں‘کچھ کچھ معاملہ بھانپ گئیں اور کہنے لگیں: بڑے میاں سو بڑے میاں‘چھوٹے میاں سبحان اﷲ۔۔۔ابھی ان کے باپ کی بزرگی مانی نہیں گئی اور یہ بیٹا بھی بزرگی جتانے لگاہے۔تھوڑے وقفہ کے بعد اکبر نے پھر ’’اوہ‘‘کی اور کہا:جیپ ٹھیک ہو گئی ہے ۔اب وہ ہمارے گھر آرہے ہیں۔۔۔۔اورپھر سچ مچ تھوڑی دیر کے بعد کوٹ شہباز والے آگئے۔امی جی نے ان کے آتے ہی پوچھا:کیا آپ لوگوں کی جیپ رستے میں خراب ہوگئی تھی؟۔۔۔۔وہ سب کے سب ہکا بکا رہ گئے کہ یہ خبر ہمارے گھر کیسے پہنچ گئی۔اکبر جو اپنے آپ میں مگن بدستور مٹی سے کھیل رہا تھا‘امی جی نے اس کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ ہمیں تو ساری رپورٹ یہی دیتا رہا ہے۔
بوا لال خاتوں کے بعد بھی کوٹ شہباز کے عزیزوں سے پیار محبت کا تعلق قائم رہا۔یہ تعلق ختم تو نہیں ہوا لیکن اس میں تھوڑی سی دراڑ ضرور پیدا ہوگئی۔ہم لوگ قریشی ہونے کے باوجود ذات پات کو اہمیت نہیں دیتے۔میری والدہ باجوہ خاندان سے ہیں۔میری بیوی بھی باجوی ہے کہ میری ماموں زاد ہے۔رشتے ناطے میں ہم صرف’’موزوں رشتے‘‘کو اہمیت دیتے ہیں۔میری ایک بھابی جاٹ خاندان کی ہے‘ایک ارائیں اور ایک اعوان۔ایک بہنوئی سید ہے‘ایک راجپوت ہے اور دوجاٹ۔۔۔میری بڑی بہن کی شادی ہوئی۔کوٹ شہباز والے عزیز بڑے چاؤ سے شریک ہوئے۔شادی سے پہلے آکر رونق لگائی۔رخصتی والے دن جب بارات آئی تو انہوں نے دیکھا کہ بارات میں اونچے اونچے طروّں والے پنجابی جاٹ موجود ہیں۔اِدھر اُدھر سے سن گن لی۔جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ دولہا کا نام چوہدری عبدالرّحیم ہے اور قریشیوں کی بیٹی کا بیاہ ایک جاٹ سے ہو رہا ہے‘اُن کی قریشی شان کو دھچکا سا لگا۔خاموشی سے ایک بس بُک کراکے لائے اور تمام مرد‘خواتین اور بچے بس میں بیٹھ کر اپنے گاؤں چلے گئے۔شادی کے ہنگامے میں ہمیں پتہ بھی نہ چل سکا۔وہ تو جب رخصتی کا وقت آیا اور اُن میں سے بعض عزیزوں کو آگے لانے کی ضرورت پڑی‘تب پتہ چلا کہ وہ تو سب کے سب خاموش احتجاج کرتے ہوئے جاچکے ہیں۔تب ابا جی کو اپنے ان عزیزوں پر افسوس ہوا۔ان سے ملنا ملانا تو ترک نہیں کیا لیکن انہیں پھر کسی بچے کی شادی پر مدعو نہیں کیا۔
کوٹ شہباز کے عزیزوں کی بڑی بڑی زمینیں تھیں لیکن زیادہ تر غیرآباد۔۔۔۔۱۹۷۰ء کے لگ بھگ انہوں نے زمینوں کا صحیح استعمال کرنا شروع کیا۔بھاولپور ڈویژن کے مختلف دیہاتوں میں ان کے مُرید موجود تھے۔ہر چھ ماہ بعد پِیر صاحبان اپنا دورہ کرتے‘سادہ لوح عقیدت مندوں سے ڈھیروں ڈھیر اناج‘دوسری چیزیں اور نقدی سمیٹ لاتے۔ان سادہ لوح عقیدت مندوں کی دینی حالت کا اندازہ اس ایک واقعہ سے کر لیں:ہم سارے گھر والے کوٹ شہباز گئے ہوئے تھے‘وہاں بھائی شہان کے گھر(بوا لال خاتوں اپنے اسی بیٹے کے ہاں رہتی تھیں) پنجاب کی سندھ سے ملحقہ سرحد کے کسی گاؤں سے چند مُرید خواتین آئیں(مُرید مَردوں کو باہر ڈیرے پر ٹھہرایا جاتا تھا ) ۔ گھرکے دروازے سے باہر ہی وہ خواتین فرطِ عقیدت سے زمین پر بیٹھ گئیں۔وہاں سے کمرے تک کا فاصلہ جو لگ بھگ ۳۰میٹر تھا‘انہوں نے زمین پر گھسٹ گھسٹ کر طے کیا۔تمام بیبیوں کے پَیروں کو عقیدت سے چھُوا اور زمین پر ہی بیٹھی رہیں۔۔۔۔اسی دوران قریب کی مسجد سے ظہر کی اذان شروع ہوئی ۔۔۔سب خاموش ہو گئے۔۔۔اذان ختم ہوئی تو سب نے کلمہ شریف پڑھا‘مُریدنیاں حیرانی سے سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔آخر ان میں سے ایک نے جو نسبتاََ بڑی عمر کی تھی‘بڑی ہی عاجزی سے بوا لال خاتوں سے پوچھا:’’بی بی پہلے وہ جوان رُوڑ رہا تھا۔وہ چُپ ہوا تو آپ سب رُوڑنے لگ گئیں۔یہ کیا معاملہ تھا؟‘‘
اگر یہ واقعہ ہمارا چشم دید نہ ہوتا تو میں کبھی بھی نہ مانتا کہ وطنِ عزیز کے کسی دیہات میں ایسے مسلمان بھی موجود ہیں جن بے چاروں کو نہ کلمے کا پتہ ہے نہ اذان کاعلم ہے۔کوٹ شہباز میں مُلیر درّن‘مُلیر مِیم اور ادی بالن بفضلہ تعالی زندہ ہیں‘وہ یقیناََ اپنی مخصوص مسکراہٹوں کے ساتھ اس واقعہ کی تصدیق کریں گی۔
ہم جب بھی کوٹ شہباز جاتے ہماری اس طرح آؤ بھگت کی جاتی جیسے ہم ان کے پِیر ہوں۔حویلی کا ہر گھر ہمیں اپنے ہاں ٹھہرانے پر مُصر ہوتا تھا۔لیکن ہم نے ہمیشہ بوا لال خاتوں کی بڑی بیٹی مُلیر دُرّن کے ہاں ہی قیام کیا۔میزبانی پر تُلے ہوئے اتنے گھر تھے کہ صبح‘دوپہر‘شام کے کھانے کے لئے ہمیں مشکل پڑ جاتی۔پھر باقاعدہ ٹائم ٹیبل بناتے تاکہ ایک ہی وقت میں دو دو ‘تین تین گھروں میں کھانا تیار نہ ہو۔کوٹ شہباز کے قریشی اپنے مُریدوں سے مال سمیٹ لاتے تھے لیکن جب ہم واپس آنے لگتے‘ساری حویلی کے گھروں سے اس طرح تحائف آنا شروع ہو جاتے جیسے مُریدانِ باصفا اپنے پِیروں کے سامنے نذرانے پیش کر رہے ہوں۔ گندم‘ چاول‘ پیاز‘ آلو‘ لہسن‘ چینی‘گُڑ وغیرہا چیزوں کے ڈھیر لگ جاتے ۔پھلوں سے لے کر کپڑوں تک اتنی چیزیں ہوتیں کہ ہمارے لئے انہیں گھر لے جانا مشکل ہو جاتا ۔ یہ مشکل بھی پھر انہیں عزیزوں میں سے کوئی دور کرتا اور سارا سامان بحفاظت ہمارے گھر پہنچ جاتا۔وہ سارے تحائف اب بظاہر عجیب سے لگتے ہیں لیکن ان کے ساتھ جو رشتوں کا تقدس‘محبت اور خلوص کی دولت ہوتی تھی وہ اتنی قیمتی تھی کہ اس کے مقابلے میں آج کی زندگی کی ساری آسائشیں اورنعمتیں بے معنی لگنے لگتی ہیں۔
اوپر میں نے بعض ناموں کے ساتھ مُلیر کا لفظ استعمال کیا ہے۔یہ سرائیکی لفظ ہے۔ماموں زاد رشتوں کے لئے بولا جاتا ہے۔خالہ زاد کے لئے مُسات‘پھوپھی زاد کے لئے پھوپھیر اور تایا زاد‘چچازادکے لئے سوتر بولا جاتا ہے۔کوٹ شہباز کے عزیزوں کو یاد کرنے لگا ہوں تو کئی خوبصورت نام ستاروں کی طرح میری یادوں میں کہکشاں سی بنانے لگے ہیں۔بوا لال خاتوں کی اولاد میں میاں پِیرن دِتہ‘میاں شہان‘مُلیر درّن‘مُلیر مِیم‘ادی بالن‘۔پھر چاچا قادر بخش‘چاچا گومے شاہ‘میاں نواز شاہ‘۔ان سب کی اولاد وں میں میاں شہبازن‘میاں مجیدن‘میاں رؤف‘میاں کریم بخش‘میاں سرفراز‘میاں بھورل شاہ‘میاں حبیبن‘ میاں فیضن‘میاں ارشاد‘میاں وڈا‘میاں شیر‘بی بی صغریٰ‘بی بی رئیسہ‘بی بی مکھنی‘بی بی حرباب‘بی بی اشفاق‘بی بی پروین‘بی بی مقصود‘بی بی حاکم‘بی بی ہوتن‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے علاوہ متعدد اور چہرے ہیں جو اس وقت پوری طرح میرے ذہن اور دل میں آئے ہوئے ہیں لیکن میری بد قسمتی ہے کہ مجھے ان کے نام یاد نہیں آرہے۔چاچا گومے شاہ اور چاچا قادر بخش ہم سے ہمیشہ اس بات پر شاکی رہے کہ ہم نے چچا کا رشتہ پسِ پشت ڈال دیا ہے اور بوا کے رشتے کو معتبر کر دیا ہے۔وہ ایک جملہ بھی بولا کرتے تھے:’’وو میاں! مُنڈھ کُوں چھوڑ تے پاند کوں پکڑی پے او۔مُنڈھ تاں اساں نال اے‘‘ان کی اس شکایت میں بھی محبت ہی تھی۔
بی بی رئیسہ ‘مُلیر دُرّن کی بیٹی ہونے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ عزیز رہی ہے۔پھر وہ میاں پِیرن دِتہ کے بیٹے وڈے میاں کی دلہن بن گئی تو مجھے اور عزیز ہوگئی۔بی بی اشفاق بچپن میں بہت ہی پیاری بچی تھی۔پتہ نہیں اسے کس کی نظر کھا گئی۔۱۹۹۱ء میں مبارکہ نے اور میں نے اب تک کا کوٹ شہباز کا آخری سفر کیا۔بی بی اشفاق کو دیکھا تو دل پر گھونسہ سا لگا۔بی بی رئیسہ اور بی بی حُرباب بھی اس کی حالت پر دُکھ کا اظہار کر رہی تھیں۔سارے کوٹ شہباز میں سب سے خوبصورت بچی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی تھی۔
کوٹ شہباز میں وٹہ سٹہ (بدلے کی شادی)کا رواج تھا‘وہ بھی برابر کی قریشی برادری میں۔جس لڑکی کا وٹہ لینے کے لئے لڑکا نہیں ہوا‘اُسے زندگی بھر شادی کے بغیر رہنا ہے۔میاں نواز شاہ کی بہن(نام یاد نہیں رہا) اور ادی بالن اسی رسم کا شکار ہوئیں۔ان کے بجھے ہوئے چہرے یاد کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ قریشِ مکّہ جو نام نہادغیرت کے نام پر بیٹیوں کوزندہ گاڑ دیتے تھے‘شاید اس لحاظ سے بہتر تھے کہ ایک ہی بار مارڈالتے تھے جبکہ زندگی بھر کنواری بٹھا دی جانے والی بیٹیاں تو ہر پَل میں ایک نئی موت کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔
کوٹ شہباز میں تو صرف وٹے سٹے کا رواج تھا جبکہ باقی سرائیکی علاقے میں وٹے سٹے کا متبادل ٹکا کہلاتا ہے۔یعنی اگر رشتہ کے بدلے میں رشتہ نہیں ہے تو ایک معقول رقم ادا کرکے لڑکی کا رشتہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔وٹہ سٹہ میں ایسے بھی ہوا کہ باپ نے اپنی بیٹی بیاہی اور اس کے بدلہ میں دولہا والوں کی بہن سے اپنی دوسری شادی رچالی۔ایسامفاہمانہ رویّہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لڑکی بیاہتے وقت فریق ثانی کے پاس وٹہ نہیں تھا تو اس نے اپنے ہاں ہونے والی پہلی بیٹی وٹہ میں لکھ دی۔اسے’’پیٹ لکھوا لینا‘‘کہا جاتا ہے۔ٹکے والی شادی میں صرف رقم بھی چلتی ہے اور رقم کے ساتھ دوسری چیزیں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مثلاََ ایک بکری‘دو مُرغیاں‘ایک سیکنڈ ہینڈ سائیکل اور ۵۰۰ روپے دے کر لڑکی کا رشتہ حاصل کیا گیا۔تاہم قریشیوں میں صرف وٹہ سٹہ ہی کا رواج تھا‘وہ بھی صرف قریشیوں کے ساتھ۔امی جی پنجابی تھیں۔ان کے خاندان میں وٹہ سٹہ جیسی کوئی قبیح رسم رائج نہیں تھی۔ابا جی سے ان کی شادی ہوئی۔پہلی دفعہ سرائیکی ماحول میں آئیں۔پندرہ برس کی عمر۔۔۔اتنی خوبصورت لڑکی۔۔۔۔دلہن کو دیکھنے کے لئے آنے والیاں پوچھتیں:
بہن!وٹہ تو قریشیوں کا تھا نہیں۔۔۔پھر ٹکا دیا ہوگا؟
کوئی رشتہ دار خاتون جو امی جی کا خیال رکھنے کے لئے موجود ہوتیں‘جواب دیتیں: نہیں بہن ٹکا نہیں لیا‘اﷲ واسطے دی ہے۔
جب دس بارہ خواتین نے یہی بات کی اور ہر بار یہی وضاحت کی گئی تو امی جی نے رونا شروع کر دیا۔تب ابا جی نے انہیں سمجھایا کہ علم کی کمی کے باعث ہمارے علاقے میں بہت ساری غیراخلاقی اور غیر اسلامی رسمیں رائج ہیں۔آپ ایسی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں کہ ہماری شادی تو درست اسلامی طریق سے ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ویسے کوٹ شہباز کے قریشیوں میں بھی اب بیٹیوں کے رشتے کی اہمیت واضح ہونے لگی ہے۔رشتے تو بے شک قریبی رشتہ داروں میں کئے ہیں لیکن اب وٹے سٹے کے بغیر بھی رشتے کرنے لگے ہیں۔اس معاملے میں میاں نواز شاہ‘میاں کریم بخش‘میاں ارشاد ‘میاں فیضن ااور مُلیر دُرّن کو وہاں کے ابتدائی انقلابی قرار دیا جا سکتا ہے۔مجھے امید ہے کہ ان چراغوں سے مزیدچراغ جلے ہوں گے اور قبیح رسموں کا اندھیرا مسلسل کم ہو تا جا رہا ہوگا۔
ایک زمانہ تھا جب کوٹ شہباز میں اسکول نہیں کھلنے دیا جاتا تھا۔نوکری کرنے کو اپنی توہین سمجھا جاتا تھا۔خدا خدا کرکے ایک اسکول کھولا گیا تو صرف لڑکوں کے لئے۔۔۔۔لڑکیوں کو پڑھانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔وہی زمانۂ جاہلیت کے قریشِ مکّہ والی باتیں۔۔۔لیکن آس پاس کے علاقوں میں تو علم کی روشنی پھیل رہی تھی۔سو پِیروں کے مُرید باغی ہونے لگے۔ان کی تعداد کم ہونے لگی۔فارغ بیٹھ کر روٹی کھانے کا امکان ختم ہونے لگا تو علم کے حصول کا احساس بھی ہونے لگا۔چنانچہ اب بعض لڑکے پڑھ لکھ کر نوکریاں کرنے لگے ہیں۔بالآخر لڑکیوں کا اسکول بھی کھول دیا گیا ہے۔بعض قریشیوں نے خود کاشتکاری کی طرف توجہ کی ہے۔باغات لگائے ہیں۔بعض نے تجارت کا پیشہ اپنا لیا ہے۔خدا ان سب کے کاروبار کو ترقی عطا کرے‘ان کے اموال میں برکت بھر دے اور انہیں خوش رکھے۔ہمارے ددھیال کے ان دور کے رشتہ داروں نے ہمیں کبھی دل سے دوری کا احساس نہیں ہونے دیا۔ہمیشہ اتنی محبت دی کہ ہماری جھولیاں چھوٹی پڑگئیں۔
آپی کی رخصتی سے پہلے ان لوگوں کا خاموشی سے رُوٹھ کر چلے جانا بھی ان کی محبت ہی کا ایک انداز تھا۔
قبیلہ قریش والی محبت کا انداز!
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen